بھارت میں افغان مہاجرین بنیادی سہولیات سے محروم
تجزیہ:محمد اکرم چودھری
بھارت میں افغان مہاجرین زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ بھارت عالمی قوانین کی پابندی بھی نہیں کر رہا۔ افغان مہاجرین کو بھی مذہب کی بنیاد پر تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دہلی میں تقریبا دس ہزار افغان مہاجرین ہیں، ان میں سے نوے فیصد کا تعلق ہندو اور سکھ برادری سے ہے۔ بھارتی حکومت صرف ہندو اور سکھ پناہ گزینوں کو اجازت دے کر دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افغانیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ہندوؤں اور سکھوں کے علاوہ دیگر مہاجرین کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بانایا جا رہا ہے۔ نریندرا مودی کی متعصب حکومت بارے دنیا جانتی ہے کہ وہ کس طرح خطے میں ہندوؤں کی تعداد بڑھانے پر کام کر رہے ہیں۔ یہ فیصلہ بھارتی قیادت کی طرف سے امتیازی اور ہندوتوا ذہنیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان سے آنے والے مہاجرین دو سال کے اسائلم ویزے پر ہیں۔ ویزا کی میعاد ختم ہونے کے بعد انہیں افغانستان واپس آنا ہوگا۔ بھارت میں افغان مہاجرین کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا ہے جب کہ پاکستان نے ہمیشہ افغان مہاجرین کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کھلے دل سے تسلیم کیا ہے۔ بھارتی شہریت نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر افغان مہاجرین کو بھارت میں سہولیات میں کمی کا سامنا ہے۔ بھارتی حکومت کے امتیازی رویے کی وجہ سے بھارت میں افغان مہاجرین کو غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ افغان شہریوں نے پہلی بار 1970 کی دہائی کے آخر میں سوویت جنگ کے دوران ہندوستان ہجرت کی۔ افغان مہاجرین کو بنیادی سہولیات جیسے سم کارڈ اور گیس سلنڈر کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ بھارت پناہ گزینوں پر اقوام متحدہ کے 1951 کے کنونشن کا دستخط کنندہ نہیں ہے ، اور نہ ہی اس ملک کا مہاجرین سے متعلق اپنا کوئی مخصوص قانون ہے۔ اس لیے یہ افغان مہاجرین کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے۔ افغانوں کو کبھی شہریت نہیں ملتی لیکن وہ ہندوستانی حکومت کی جانب سے دو سال کی مدت کے لیے فراہم کردہ طویل المیعاد ویزوں پر رہتے ہیں اور دو سال کی میعاد ختم ہونے کے بعد انہیں افغانستان واپس آنا پڑتا ہے اور اپنے ویزا کی تجدید کرنی پڑتی ہے۔ ہندوستان کی وزارت داخلہ کے مطابق ، شہریت کے خواہاں افراد کو یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ وہ 31 دسمبر 2014 کو یا اس سے پہلے ہندوستان میں موجود ہیں۔ بھارت دوہری شہریت کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ بہت سے مغربی ممالک افغان شہریوں کو ایک افغان شہری رہنے کا موقع دیتے ہیں چاہے وہ اس ملک میں دوبارہ آباد ہوں۔ افغان طالب علم جو بھارتی یونیورسٹیوں سے سٹوڈنٹ ویزا پر تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کی بھارت میں ایک مبہم قانونی حیثیت اور ایک غیر یقینی مستقبل ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے معاہدوں پر دستخط نہیں کیے۔ بھارتی حکومت نے کچھ گروہوں کو عارضی تحفظ دیا ہے جن میں تبتی اور سری لنکن بھی شامل ہیں۔ لیکن اس میں پناہ کے مجموعی فریم ورک کا فقدان ہے۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی پناہ گزین کی حیثیت کے باوجود ، بہت سے افغانی ہندوستان میں طویل مدتی منصوبے بنانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نئی دہلی میں ایک دفتر چلاتے ہیں، جو بہت سے افغانیوں اور دیگر کو پناہ گزین کا درجہ دیتا ہے اور انہیں شناختی کارڈ جاری کرتا ہے حیران کن بات ہے کہ یہ دفتر مارچ 2020 سے بند ہے۔ افغان پناہ گزین بھارت میں کام نہیں کر سکتے ، نہ وہ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ افغان بھارت میں غیر محفوظ ہیں۔ افغان مہاجرین خطے کے دیگر ممالک جیسے پاکستان اور ایران اور یہاں تک کہ امریکہ کے مقابلے میں ہندوستان میں کم ہیں۔ہندوستان میں افغان مہاجرین کو غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔