کیا ہم حسینی ؓ ہیں یا ۔۔؟
بہاولنگر میں جو واقعہ پیش آیا ، دل دہلا دینے والا تھا، خون میں لتھڑے جسم، بکھرے اعضاء اور فضاء میں بارود کی بو۔ جس نے پورے ملک میں غم و الم میں ڈبو دیا۔ مارنے والا بھی مسلمان، مرنے والے بھی مسلمان، مگر کیوں ہوا ایسا؟ مجھ سے کئی دفعہ میرے دوست پوچھتے ہیں یار تم سُنی ہو یا شیعہ؟ تو میرا جواب بہت آسان اور سیدھا سے ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد آپ صرف حسینی ؓ ہو سکتے ہیں یا یزیدی، اور الحمد للہ میں حسینی ؓ ہوں۔ مگر ہم بھولتے جا رہے ہیں کہ یہ واقعہ کربلا ہمارے لئے ایک درس ہے ، مگر ہم اس سے سبق حاصل کرنے کی بجائے دیگر آپسی جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ذرا غور فرمائیں! حضرت سیدنا حسین ؓ کا فرمان ہے ’’ہر چیز کی اساس ہوتی ہے ،اور اسلام کی اساس اصحاب رسول ؐ اور آپ ؐ کے اہل بیت کی محبت ہے ‘‘۔ اس ارشاد مبارکہ کی روشنی میں یہ معلوم کرنا مشکل نہیں کہ کون اساسِ اسلام کی حفاظت کر رہا اور کون کمزور کر رہا ہے۔صحابہ کرام ؓ اور اہل بیتؓ میں تفریق کرنا ہمیں زیب نہیں دیتا کیونکہ انکی محبت، تسلیم عظمت اور حرمت عین ایمان ہے ۔اہل بیت ایک روشن مینارہ ہیں اور صحابہ کرامؓ منزل کی جانب راہنمائی کرنیوالے چمکدار ستارے کی مانند ہیں۔ سو جس نے ان کو مانا وہ منزل پر پہنچ گئے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ آج کچھ لوگوں نے ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا ہے اور اب اپنے الگ الگ نظریات میں اس قدر پکے ہو چکے ہیں کہ نہ انہیں ان کی عظمت کا لحاظ ہے اور نہ ہی ان کی حرمت کا ۔بلا شبہ واقعہ کربلا اتنا درد ناک سانحہ ہے کہ اسکے جو دل سے اسے محسوس کرے تو اس کا کلیجہ پھٹ جائے یا اس کا دل ساکت ہو جائے ۔ آغا شورش کاشمیری نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’ سانحہ کربلا اتنا دل گداز اور اثر انگیز واقعہ ہے کہ جب کسی مقرر کو سامعین کی توجہ حاصل نہیں ہوتی تو وہ واقعہ کربلا کا ذکر چھیڑ لیتا ہے اور رنگ جما لیتا ہے ‘‘۔اہل بیت سے محبت ہمارے ایمان کا تقاضاہے اور رسول اللہؐ کی رضا کا ذریعہ ہے ۔ جن لوگوں نے اہل بیت کو ستایا تو انہوں نے صریحاً ظلم کیا اور اپنا سب کچھ گنوا دیا۔ کامیاب صرف وہی ہو ا جو سیدھی راہ پا لے ۔ لیکن ہمارے یہاں سیدھی راہ سے مراد ہر انسان نے اپنی لکیر الگ سے کھینچ لی ہے اور اس کے پیچھے چلتے ہوئے فتنے اور فساد کا باعث بن رہا ہے ۔
مگر دیکھا جائے تو قرآن مجید نے ہمیں ایک معیار عطا کیا ہے او ریہی سیدھا اور سچا راستہ ہے ، نبیوں، صدیقوں ، شہیدوں اور نیکو کاروں کی راہ۔ اور اس راہ پر چلانے کیلئے اللہ نے قرآن کے ساتھ اپنا رسول بھیجا ، اور پھر اللہ کے احکام اور قرآن کی روشنی میں نبیؐ نے اپنی سنت سے صراط مستقیم واضح کر دی۔اب اپنے دور کے بعد آنے والوں کے لئے حضورؐ نے قرآن ہی کی روشنی میں دو طبقوں کی نشاندہی کر دی ۔ پہلے اہل بیت اور دوسرے صحابہ کرام اور فرمایا کہ فتنوں کے دور میں یہ حضرات جس راہ پر چلیں گے ، وہی صراط ِ مستقیم ہو گی۔
اہل بیت کے بارے میں آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑرہا ہوں، کتاب اللہ اور اپنے اہل بیت اور یہ کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے‘‘۔ اسکے بعد پھر ارشاد کیا کہ ’’تمہار ے اندر میرے اہل بیت سفینہ نوح ؑ کی مانند ہیں اور جو اس میں سوار ہو گیا ، بچ گیا اور جو پیچھے رہ گیا ، ہلاک ہوا‘‘ اور پھر صحابہ کرام کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ، ان میں سے جس کی بھی اقتدا کرو گے ، راہ پا جائو گے‘‘۔ اور پھر حکم دیا کہ ’’تم پر لازم ہے کہ میری سنت کی پیروی کرو اور میرے خلفاء کی سنت کی ، جو سراپا رُشد و ہدایت ہیں‘‘۔ ان احکام کی نظر میں دیکھا جائے تو اہل بیت اور صحابہ کرام دونوں سے محبت اور دونوںکا احترام ہی لازم ہے اور ایمان کا جزو ہے۔بد قسمتی سے ہمارے یہاں دیگر سیاسی اور سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ بہت سارے لوگ اس بارے میں بھی تفریق کا شکار ہو گئے ہیں جب کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ دونوں ہی ہمارے نبی محمدؐ کو بہت عزیز ہیں ۔
اس لئے لازم ہے کہ ہم نبی کریم ؐ ، حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ اور صحابہ کرام کے اسوۂ پر عمل کریں، ایک دوسرے سے محبت کریں، ایک دوسرے کا احترام کریں، صبر اور برداشت کا دامن کبھی اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اپنے ملک کو امن اور محبت کا گہوارہ بنائیں اور فرقہ بازی اور نفرتوں کے بیج بونے والوں کا قلع قمع کریں۔ وگرنہ وہ دن دور نہیں کہ جب باہر بیٹھا دشمن ہمارے ان آپسی تفرقوں کا فائدہ اٹھا کر ہم پر خدانخواستہ غلبہ حاصل نہ کر لے۔