افغان مہاجرین کا نیا ریلہ اور ہم
افغان مہاجرین کی آمد کی اس نئی لہر سے جو مسائل پیدا ہونگے، ان سے نمٹنے کیلئے کیا ہماری حکومت تیار ہے۔ اس سے پہلے کہ ملک پر مہاجرین کی نئی یلغار ہو اور ہم اسکے سامنے بند باندھنے سے قاصر ہوں، ہمیں ازخود اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ اس وقت بھی کم و بیش 20لاکھ افغان مہاجر پاکستان میں موجود ہیں، یہ لوگ گزشتہ30 برس سے ہماری معیشت اور معاشرت دونوں پر زبردست بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر پاکستان اور افغانستان میں کاروبار بھی کرتے ہیں۔ رہائش بھی رکھتے ہیں۔ آتے جاتے ہیں مگر نام مہاجر کا استعمال کرتے ہیں۔ ہزاروں نہیں، لاکھوں افغان مہاجروں نے پاکستان بھر میں جعلی شناختی کارڈ بنوا کر گھر، دکانیں اور پلازے خریدے ہیں۔ یہ سب اسلحہ اور منشیات کی کمائی سے ہی ممکن ہے ورنہ عام پاکستانی بھی یہ سب کچھ خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔
ان پرانے افغان مہاجروں کے بوجھ نے پہلے ہی ہماری کمر توڑ کر رکھی ہے۔ اوپر سے امن و امان کا مسئلہ الگ ہے۔ ان پر ہاتھ ڈالنا بھی آسان نہیں۔ یہ نہایت منظم ہیں۔ کسی ایک پر ہاتھ ڈالیں تو اسکے ساتھی مل جل کر ان کو بچا لیتے ہیں۔ انہوں نے منظم طریقے سے شہروں میں اپنی علیحدہ آبادیاں بنا لی ہیں۔ یوں ان کے یہ غیرقانونی ٹھکانے محفوظ بن گئے ہیں۔ جہاں غیرقانونی کاروبار اور اسلحہ و منشیات سمگلنگ عروج پر ہے۔ کیا کسی بھی ملک میں کسی بھی مہاجر کمیونٹی کو ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ کیا وہ وہاں املاک خرید سکتے ہیں۔ جعلی شناختی کارڈ اور ڈومسائل بنا کر شہریت حاصل کر سکتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، لاکھوں نہ سہی، ہزاروں افغان مہاجرین نے اس دو نمبر طریقے سے پاسپورٹ بنوا رکھے ہیں جس کی بدولت یہ اپنی افغانستان والی تجارت دیگر ممالک میں کرتے پھرتے ہیں اوریہ پاکستان اور افغانستان دونوں طرف سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔پھر بھی پاکستانی انہیں برداشت کر رہے ہیں۔ انکی خاطر مدارت کرتے ہیں۔ اسکے باوجود یہ لوگ پاکستان مخالف جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔کبھی محسن داوڑ، کبھی منظور پشتین اور کبھی علی وزیر کے پیچھے انہی مہاجر نوجوانوں کی اکثریت نظر آتی ہے۔ حالانکہ یہ سب یہاں پاکستان میں ہی پیدا ہوئے ہیں۔ ان کو دیکھا دیکھی اب بہت سے مردہ تن قوم پرست بھی خود کو افغانی کہہ کر نجانے کونسی احساس کمتری دور کرتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ بلوچستان اور خیبر پی کے میں آباد کروڑوں پٹھان پکے اور سچے پاکستانی ہیںجو پاکستان میں عزت و احترام کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کی جان، مال، عزت محفوظ ہے۔ وہ پورے ملک میں رہتے اور کاروبار کرتے ہیں جنہیں عزت کے ساتھ ’’خان صاحب‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے اور لوگ انکی سادگی اور دیانتداری کے معترف ہیں۔ اب ان افغان مہاجروں کی حرکات کی وجہ سے لوگ یعنی پاکستانی پریشان اور تنگ ہو رہے ہیں۔ وہ سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں مگر پاکستان کیخلاف نعرے، جلسے جلوس اور پاکستانی پرچم کی بے حرمتی ان کیلئے ناقابل برداشت ہے جس کا مظاہرہ بعض بدبخت افغان مہاجر گروپوں کی طرف سے ہوتا ہے۔
ان حالات میں اب اگر نئے مہاجرین کا بڑا ریلہ پاکستان کا رخ کرتا ہے تو ان کو سنبھالنا اور آبادیوں سے دور رکھنا بے حد مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ انکے دور و قریب کے رشتہ دار، دوست اور احباب پہلے سے ہی یہاں موجود ہیں۔ یوں یہ نئے افغان مہاجر بھی کیمپوں میں رہنے کی بجائے شہروں کا رخ کرینگے جہاں مقامی لوگوں کیلئے رہائش اور روزگار کے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ اسکے ساتھ نت نئے سماجی و معاشرتی مسائل اور جرائم کے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑیگا۔ پاکستان پہلے ہی افغانستان کے ساتھ سرحدی بارڈر پر باڑ تقریباً مکمل کر چکا ہے تاکہ وہاں سے غیرقانونی طریقے سے آنے جانے والوں کا راستہ روکا جا سکے مگر اب جب یہ مہاجرین کا ریلہ داخل ہوگا تو اسے کون روکے گا۔ اس وقت بھی سب سے زیادہ بوجھ پاکستان کو ہی برداشت کرنا ہوگا۔ ایران کا نمبر دوسرا ہے مگر وہاں سخت ماحول اور حالات کی وجہ سے بہت کم مہاجرین جانا ار رہنا پسند کریں گے۔ البتہ ایران کے راستے لاکھوں مہاجرین ترکی کا رخ کرینگے جہاں اس وقت لاکھوں مہاجرین پہلے ہی سے موجود ہیں اور ترکی کی حکومت نے واضح طورپر مزید مہاجرین کو قبول کرنے، انکی میزبانی سے انکار کر دیا ہے۔اب لے دیکر سارا بوجھ پاکستان پر پڑیگا۔ عالمی اداروں کی 2020ء کی جاری کردہ سروے رپورٹ کے مطابق 14 لاکھ 38 ہزار رجسٹرڈ مہاجرین پہلے ہی موجود ہیں۔ غیر رجسٹرڈ کا تو کوئی شمار نہیں۔ وہ بھی 10 یا 12 لاکھ سے کم نہیں۔اب حکومت معیشت اور اندرون حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے مہاجرین کے بارے میں فیصلہ کرے۔ پہلے ہی پاکستان مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کی طرف سے اپنے اپنے ہم عقیدہ اور ہم خیال افغان مہاجرین کو بے حساب و کتاب لا کر بسانے اور انہیں جعلی قومیت دینے کی سزا بھگت رہا ہے۔ اب ہمیں نہایت احتیاط سے کام لینا ہے۔ عالمی برادری اور مہاجرین کیلئے قائم عالمی اداے اگر سرحدی علاقوں میں ایران کی طرح خاردار دیواروں میں قید مہاجرین کالونیاں یا بستیاں بسا کر دیتی ہے تو تب ہمیں ان مہاجرین کو قبول کرنا چاہئے تاکہ وہ ادارے انکی رہائش، خوراک اور ادویات کا بندوبست خودکریں۔ ہماری کمزوری کرونا کا شکار ڈگمگاتی معیشت اتنا بھاری بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔