احاطہ سے ملزم کی گرفتاری ، سپریم کورٹ برہم : چیئرمین نیب کا نوٹس
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ وقائع نگار) سپریم کورٹ نے نیب کیس میں نامزد سیف الرحمان کی دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض عبوری ضمانت منظور کرلی۔ سپریم کورٹ نے آئندہ سماعت پر ڈی جی نیب راولپنڈی اور ڈی جی ایچ آر راولپنڈی کو نوٹس جاری کرکے طلب کرلیا ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے ملزم کی عدالتی احاطہ سے گرفتاری پر غیر مشروط معافی مانگ لی۔ دوسری جانب چیئرمین نیب نے گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے ملوث افراد کیخلاف فوری تادیبی کارروائی کا حکم دیدیا ہے۔ یاد رہے کہ سیف الرحمن کو پیشی پر آتے ہوئے سپریم کورٹ کی پارکنگ سے نیب حکام نے تحویل میں لے لیا تھا جس پر ملزم کے وکیل نے نیب کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کردی ، تو عدالت نے ملزم کو فوری طور پر پیش کرنے کا حکم دیا اور نیب حکام ملزم کو عدالت میں لیکر پیش ہوئے۔ جسٹس منیب اختر نے نیب حکام پر اظہار برہمی اور سرزنش کی اور کہا تھا کہ نیب کے حکام جو روسٹرم پر کھڑے ہیں پیچھے جاکر بیٹھ جائیں، گرفتاری میں ملوث نیب ملازمین کے خلاف کیوں نہ ایف آئی آر درج کرائیں، نیب کے ملازمین کو یہاں سے ہتھکڑی لگاکر بھیجیں گے۔ قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی ایمرجنسی کیا تھی کہ نیب نے ملزم کو ڈرامائی انداز میں گرفتار کیا۔ سپریم کورٹ نے ملزم کی گرفتاری میں ملوث نیب ملازمین کو ایک ایک لاکھ کے سکیورٹی بانڈ جمع کرانے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ ملزم کو گرفتار کرنے کی احاطہ عدالت کی سی سی ٹی وی فوٹیج آئندہ سماعت پر پیش کی جائے۔ قائم مقام چیف جسٹس نے کہا عدالت کے وقار کا تحفظ کرنا ہے۔ عدالتی احاطہ کی توہین نہیں ہونے دینگے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج سے نیب ملازمین کی شناخت کی جائے گی۔ قانون کی حکمرانی ضروری ہے۔ نیب نے ریکوری کرنی ہے تو قانون کے مطابق کرے۔ نیب شہریوں کو خوفزدہ کرکے ریکوری نہیں کرسکتا، قانون کی حکمرانی ریکوری سے زیادہ اہم ہے۔ سپریم کورٹ کوئی کیسنو نہیں ہے کہ نیب ملازمین اس طرح حملہ آوور ہوں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نیب کا یوں ملزم کو عدالت سے گرفتار کرنا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ اسی لئے پراسیکیوٹر جنرل نیب خود شرمندگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ کیا درخواست گزار کوئی بہت بڑا مجرم ہے؟ جسٹس منیب اختر نے نیب افسروں کے رویئے پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے کہاکہ نیب افسر کی گرفتاری کا حکم دیں گے، سپریم کورٹ کس تھانے کی حدود میں آتی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نیب کی لوگوں کی ٹریننگ ہونی چاہیے ، اگر ضروری ہوا تو سخت کاروائی کریں گے۔ سپریم کورٹ بنیادی حقوق کی حفاظت کیلئے موجود ہے۔ نیب کو عدالت کا احترام تو کرنا چاہیے تھا۔ کیا نیب کے یہ افسر کسی کلب کے بائونسر ہیں نیب کی پاس اتھارٹی لوگوں کو ہراساں کرنے کیلئے نہیں۔ دریں اثناء کمرہ عدالت نمبر ایک کے باہر نیب افسر عادل شہزاد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے سرکاری کام کیا ہے کوئی ذاتی نہیں، آئندہ بھی اختیار استعمال کریں گے۔ دوسری جانب اعلامیہ کے مطابق چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال نے نیب راولپنڈی سے24گھنٹوں میں رپورٹ طلب کرلی ہے جس کی روشنی میں ذمہ داران کا تعین کرنے کے بعد کارروائی کی جائے گی۔