مسائل حل نہ ہونے سے پوری سوسائٹی بددلی کا شکار
لاہور (فاخر ملک) میاں شہباز شریف نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ برسراقتدار آئی تو مہنگائی اور بے روزگاری ختم کر دے گی۔ یہ دعویٰ اقتدار میں آنے والی ہر حکومت کرتی رہی ہے اور ہر حکومت نے مہنگائی میں اضافہ کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی موجودہ قیمت کو 166 روپے سے کم کر کے 105روپے کی سطح پر واپس لے آئے گی۔ کیا درآمدات کو 60 ارب ڈالر سے کم کر کے 30 ارب ڈالر کیا جا سکتا ہے۔ کیا آٹے کی قیمت کو 55، 60 روپے کلو سے کم کر کے 35 سے 40 روپے ‘ چینی کی قیمت کو 110، 115 سے کم کر کے 55 سے 60 روپے‘ بناسپتی گھی اور آئل کی قیمت کو 350، 370 روپے کلو سے کم کر کے 150 سے 170 روپے‘ دودھ کی قیمت 100 سے 120 روپے کلو سے کم کر کے 55سے 60روپے اور ڈبے کے دودھ کی قیمت 190 روپے سے کم کر کے 90 سے 110 روپے کلو کی سطح پر لایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح بجلی اور گیس کے علاوہ پٹرول کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہ چند روزمرہ اشیا ہیں جن کا مو جودہ اور 2018ء کی قیمتوں سے موازنہ کیا گیا ہے۔ اصل صورتحال یہ ہے کہ اپوزیشن میں رہ کر سیاستدان عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے کی بجائے برسراقتدار حکومتوں پر محض تنقید کا سہارا لے کر منفی پراپیگنڈا کرتے ہیں لیکن حقیقتوں کا ادراک نہیں کرتے اور نہ ہی عوام کو ان سے آگاہ کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں عام آدمی کے مسائل حل نہ ہونے سے پوری سوسائٹی بددلی کا شکار ہے۔ اس پھیلنے والی بددلی کو روکنے کیلئے سیاستدانوں کو عوام کو خواب دکھانے کی بجائے حقائق سے آگاہ کرنا چاہئے۔ اضافہ کی بنیادی وجوہات میں روپے کی ڈالر کے مقابلہ میں قدر میں کمی ‘ زرعی اور صنعتی شعبہ کی ضروریات کے مقابلہ میں پیداوار میں کمی‘ درآمدات میں اضافہ اور زرعی شعبہ کی عاملین پیداوار مثلاً کھاد‘ کیڑے مار ادویہ اور زرعی مشینری پر ٹیکسوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ملکی اخراجات میں اضافہ کے ساتھ ملکی اور غیر ملکی قرضوں میں اضافہ کے علاوہ دیگر عوامل شامل ہیں۔ 2013-18 کے پانچ سالوں کے دوران ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر برقرار رکھا گیا جس کے نتیجہ میں درآمدات پر سبسڈی دی گئی اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ کو روکا گیا جس کا اثر برآمدات پر بڑھا۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر نے مہنگائی میں کمی اور بے روزگاری کے خاتمہ کا اعلان تو کیا ہے لیکن کوئی پروگرام نہیں دیا۔