• news
  • image

بے حسی پر مری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے

دوستو کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
بے حسی پر مری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے
میں بھی چپ تھا کہ چلو سینے میں خنجر ہی تو ہے
مدعابے حسی اور روزمرہ زندگی ہے۔ ہم لوگ اتنے بے حس ہوتے جارہے ہیںکہ ہمیںساتھ والے شخص اور ساتھ والے گھر تک کے حالات کے بارے میں بھی علم نہیںہوتا۔اس سے بڑی بے حسی  اور کیا ہوگی کہ سڑک  پرایمبولینس کا سائرن بج رہا ہوتا ہے اور کوئی اسے راستہ تک نہیں دیتا، ایمبولینس میںپڑا مریض اور اس کے لواحقین کی حالت کیا ہوتی اور ان پر کیا بیت رہی ہوتی ہے یہ تو وہی جانتے ہیں لیکن دل ہی دل میںلوگوں کی بے حسی کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔  ؎
جمع ہم نے کیا ہے غم دل میں
اس کا اب سود کھائے جائیں گے
ایک شخص کی ذاتی بے حسی دو صورتوں میں عیاں ہوتی ہے۔ ایک تو صورتحال یہ ہے کہ اس کے ماں باپ یا بھائی بہن سخت توجہ کے محتاج ہیں، جیسے کہ بیمار ہیں، پیسوں کی ضرورت ہے یا کوئی اور پریشانی ہوتی ہے اور وہ شخص منہ موڑ لیتا ہے۔ یہ بے حسی ایک طرح کی قطع رحمی ہے۔ دوسری صورت حال سماج میں اس شخص کا بے حس ہونا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی سماج میں رہتا ہے اور اس میں غریب اور مفلوک الحال لوگوں کی مطلق کبھی بھی کچھ مدد نہیں کرتا اور نہ ہی کسی سے کوئی ہم درد جتاتا ہے، تو یہ ایک شخص کی اپنے سماج سے بے حسی ہے۔سماج کی اپنی بے حسی بھی ممکن ہے۔ اس میں رواں واقعات یا توجہ طلب معاملات سے لوگ خود کو لا تعلق کر دیتے ہیں۔ اس کی منظر کشی  ہمارے معاشرے کے مختلف واقعات ہیں،کسی عورت سے راہ چلتے اس کا بیگ چھین لیا جاتا ہے،گلی محلے میںڈکیتی کی وارداتیں، یہ سوچے بغیر اس کورقم کی ضرورت زیادہ ہوگی لیکن کوئی اس کی مدد کونہیں آتا ہے۔بے حسی انسان کے لئے ایک زہر ہلاہل کی حیثیت رکھتی ہے۔یہ انسانی روح کا زنگ ہے جسے صاف کرنے کے لئے کسی کا احساس درکار ہوتا ہے۔لیکن بے حس انسانوں میں وہ بیدار ہی نہیں ہوتا۔بے حس قومیں جب دوسروں کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی نیت کریں وہ نہ تو آگے بڑھ سکتی ہیںنہ آزاد رہ سکتی ہیں۔تقدیر ان کے لئے دائمی غلامی اور بے چارگی لکھ دیتی ہے۔اب تو ہم ایسے بے حس ہو چکے ہیں کہ گویا سُن ہوں۔ کہیں سے کسی بم دھماکے کی خبر آئے تو نئی نہیں لگتی۔ کسی کی عزت پامال ہوتے ہوئے دیکھیں تو کوئی خاص بات نہیں لگتی۔ کسی ماں کا اکلوتا بیٹامارا جائے تو فرصت کے چند لمحے ایک خفیف سے صدمے کی نظر ہوتے ہیں،پر جب اسی طرح کا کوئی ظلم ہم پر گزرے تو ہماری چیخ و پکار سننے والی ہوتی ہے۔ پاکستانی معاشرے کو انتہائی اہم اور سنجیدہ باتوں کو مذاق سے ہلکا کرنے کی عادت پڑچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنجیدگی سے اصلاح کی کوشش کرنے کی بجائے کرپٹ اور قوم کے مجرموں کا مذاق بنا کر اپنے دلوں کو تسلی دے لی جاتی ہے۔ مصنوعی جذبات اور ڈینگیاں ہم پر غالب آتی جا رہی ہیں۔کوئی کچھ کرنے کا سوچے بھی تو بے حسی آ دبوچتی ہے، پھر ہم اپنی محرومیوں اور ناکامیوں کی ذمہ داری حکمرانوں اور سیاستدانوں پر ڈال دیتے ہیں۔ سیاستدانوں کی بدعنوانی کو طنز و مزاح کی حد تک اہمیت دی جاتی ہے۔دنیا میں جہاں حکمرانوں اور سیاستدانوں کی معمولی سی بدعنوانی پر بھی عوام اُن کے احتساب کیلئے، اپنے حقوق بچانے کیلئے، اپنے فرض کو نبھاتے ہوئے گھروں کے آرام و سکون کو الوداع کہہ کر سڑکوں پر نکل آتی ہے اور مطالبات کو انجام تک پہنچا کر ہی دم لیتی ہے ایسے دور میں پاکستانی عوام گھروں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے، سیاسی اشرافیہ کی بد عنوانیوں پر لعن طعن کرنے اور سوشل میڈیا پر طنزیہ کلمات میں تنقید کا اظہار کر کے خوش ہو رہتی ہے۔ پھر ایسے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو بھی اِس قسم کے طنز و مزاح اور بے ضرر تنقید سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ جمہوریت ہے اور برداشت اِس میں سب سے بڑی خاصیت ہے ذخیرہ اندوز اور مافیاز جب اِس لوٹ مار میں مصروف ہو تے ہیں تویہ اس کو گناہ یاضمیر کی آواز بالکل نہیں کاروبارکی درست اپروچ قرار دیتے ہیں حیران کن منظر یہ سامنے آتا ہے کہ جب لوٹ مار کا یہ بازار گرم ہو تا ہے تو اِن کی روزانہ ماہانہ کمائیا ں بہت زیادہ کو ہ ہمالیہ کی طرح آسمان کو چھو رہی ہو تی ہیں تو اِس کو گناہ کی بجائے اللہ کا خاص کرم قرار دے رہے ہو تے ہیں۔ ؎
ظلم چکھا یا بے حسی چکھی
کیا کبھی تم نے بے بسی چکھی 
ہمیں چاہیے کہ ہر ایسے رویے کو جو کہ ہمیں عملی طور پر متحرک کرنے کے بجائے ہمارے اندر احساسِ زیاں کو ختم کرنے کا موجب بنے اسے سختی کے ساتھ جھٹلا دیں بجائے اِس کی حوصلہ افزائی کریں۔ کوئی بھی بات جو سنجیدگی چاہتی ہے اسے سنجیدگی سے ہی لینا چاہئے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن