نئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور ججوں کی ذمہ داریاں
نئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس محمد امیر بھٹی نے گزشتہ چند دنوں میں جو فیصلے کئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہائی کورٹ کی فضا مثبت انداز میں بدلنے لگی ہے لاہور ہائی کورٹ کے 51 چیف جسٹس کے طور پر منصب سنبھالنے والے جناب محمد امیر بھٹی وہاڑی ضلع سے تعلق رکھتے ہیں اور ہائی کورٹ کے جج بننے سے پہلے وہ امریکن بار ایسوسی ایشن کے ممبر انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن کے ممبر اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کے جنرل سکرٹیری کے طور پر قانون کی سطح پر اہم خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہوںنے حال ہی میں ججوں کی ایک تقریب حلف برداری میں بھی کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا یہ تقریب 2 ایڈیشنل سیشن ججز اور 8 سول ججز نے کے عہدوں کی حلف برداری کی تھی ۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ محمد امیر بھٹی نے کہا کہ ججز بغیر کسی دنیاوی خوف و خطر کے میرٹ پر انصاف کریں۔ رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ نے نئے بھرتی جوڈیشل افسران سے حلف لیا۔ جسٹس امیر بھٹی نے حلف برداری کی ایک تقریب میں کہا کہ نئے جوڈیشل افسروں نے فرائض منصبی کا حلف اٹھایا ہے ۔ یہ حلف جج اور اللہ تعالیٰ کے درمیان خاص رابطہ قائم کرتا ہے ۔ یہ حلف نہ صرف جج بلکہ گھر والوں، عزیزواقارب پر بھی لاگو ہوتا ہے ۔ کسی جج کے عزیزواقارب اسے حدود سے تجاوز کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہیں۔فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ جج کے منصب پر فائز ہر شخص کو اپنے رشتوں، خواہشات اور وقت کی قربانی دینی ہوتی ہے جج کے منصب پر فائز ہر شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہے ۔ یہ منصب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ا یک انعام ہے ۔ ہم اپنے ہر فیصلے پر اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ جج کا منصب کوئی افسری نہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی امانت ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ پر مکمل بھروسہ اور توکل ایک جج کا نصب العین ہونا چاہیے غریبوں، دکھی لوگوں کا مداوا کرنا ہمارا بنیادی فریضہ ہے ۔ ظلم کا شکار افراد کو انصاف کی فراہمی ہمارا مقصد ہے ۔ ہر جج اپنے فیصلوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو گا۔ ہمارے عدالتی فیصلے آخرت میں ہماری جزا و سزا کا محور ہوں گے ۔ اس سے پہلے انہوں نے سیاسی مصلحتوں سے بالا تر رہنے کے حوالے سے بھی ایک اہم فیصلہ کیا تھا اور وہ لاہور ہائیکورٹ کی جج جسٹس عائشہ ملک کی بطور سپریم کورٹ جج تقرری پر رضامندی کے حوالے سے تھا چنانچہ انہوں نے ایک بات کو صحیح سمجھتے ہوئے جوڈیشل کمشن کو آگاہ کر دیا۔ اس فیصلے سے ان کی قوت ارادی اور فیصلے کرنے میں آزادی کا اظہار بھی ہوتا ہے کیونکہ سپریم کورٹ میں خالی نشستوں پر نئے ججز کی تقرر ی کے لئے جوڈیشل کمشن کا اجلاس9 ستمبر2021ء کو طلب کر کیا گیا ہے جس میں جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کے معاملہ پر غورکیا جائے گا۔ واضح رہے کہ فیصلہ ہونے کی صورت میں جسٹس عائشہ ملک سپریم کورٹ آف پاکستان کی پہلی خاتون جج ہوں گی۔ سندھ ہائیکورٹ کی طرف سے نامزد ہونے والے جج کے حوالے سے تنازعہ چل رہا ہے اور اسی پس منظرمیں 9 ستمبر کو ہی سپریم کورٹ بارکی طرف سے ہڑتال کی کال بھی دی گئی ہے مگر پنجاب میں چیف جسٹس نے کسی محاذ آرائی کی بجائے جسٹس عائشہ اے ملک کی نامزگی پر رضا مندی ظاہر کی ہے جس سے صورت حال کے بہتر ہونے میں مدد مل سکتی ہے ۔ چیف جسٹس قاسم خان کے بعد محمد امیر بھٹی چیف جسٹس لاہور کورٹ بنے ہیں اور وہ 7مارچ2024 تک اس منصب پر فائزرہیں گے ۔بعض سینئئر وکلا کی رائے کے مطابق جناب چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے محترمہ عائشہ اے ملک کے حوالے سے رضا مند ی کایہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ چیف جسٹس کے منصب پر تقرری کے لئے سینئر ترین جج کے اصول کا سپریم کورٹ میںجج کی تقرری کے معاملے پر اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ اس حوالے سے آئین اور متعلقہ قوانین خاموش ہیں بلکہ سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ موجود ہے جسکے تحت کسی جونئیر جج کو بھی سپریم کورٹ کے جج کے لئے نامزدکیا جا سکتاہے۔ محترمہ جسٹس عائشہ اے ملک 27مارچ2012 کو ہائی کورٹ کے جج کے منصب پرفائز ہوئی تھیں اور اگر وہ ہائی کورٹ میں رہتیں تو انہیں2 جون2028کو ریٹائر ہونا تھا۔ وہ سنیارٹی میں اس وقت لاہور ہائی کورٹ میں چوتھے نمبر پر ہیں ۔ اور اب پنجاب بھر کے دور دراز کے وکلا کے لئے اچھی خبر کہ دیگر شہروں سے آنے والے پنجاب بار کونسل کے ممبران کے قیام کیلئے لائرزلاجز کو کھول دیا گیا ہے ۔ جوکرونا کی وجہ سے جولائی میں بند کر دیا گیا تھا۔ پنجاب بار کونسل کی ویب سائٹ کا بھی افتتاح کردیا گیا ۔تمام ڈسٹرکٹ بار کے صدور اور جنرل سیکرٹریز کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ پنجاب بار کونسل میں ویب سائٹس کے فتتاح اور لائرز لاجز کو اوپن کرنے کا اعلان ایک خصوصی تقریب میں کیا گیا ۔