طالبان حکومت جامعہ نہیں ، یورپی یونین، تعاون کر ینگے، جاپان ، اہداف حاصل کر لئے ، امریکہ
کابل/ واشنگٹن (نوائے وقت رپورٹ) امریکی صدر جوبائیڈن نے دعویٰ کیا تھا کہ چین کو طالبان سے حقیقی مسئلہ درپیش ہے لہٰذا وہ ان کے ساتھ معاہدے کرنے کی کوشش کرے گا۔ بائیڈن نے کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ پاکستان، روس اور ایران بھی اسی طرح کریں گے، ان تمام کی جانب سے ایسی کوششیں کی جارہی ہیں۔ جاپانی حکومت کے ترجمان نے بیان میں کہا ہے کہ طالبان سے بات چیت جاری رکھیں گے۔ طالبان کے اقدامات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ امریکا اور دیگر متعلقہ ممالک کے ساتھ بھی جاپان تعاون جاری رکھے گا۔ امریکا کے صدر جو بائیڈن نے کہاہے کہ پاکستان، ایران، چین اور روس متنازع معاملات پر افغان طالبان سے بات اور معاہدے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ادھر نئی افغان حکومت پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اس حکومت میں اہم منصبوں پر کام کرنے کے لیے چنی گئی بعض شخصیات کی وابستگی اور ریکارڈ تشویش کا باعث ہے۔ سراج الدین کے حقانی نیٹ ورک کا نام دہشت گرد تنظیموں سے متعلق امریکی فہرست میں شامل ہے۔ امریکہ معلومات فراہم کرنے والے کے لیے پچاس لاکھ ڈالر کا انعام مقرر کر چکا ہے۔ سراج الدین کے علاوہ نئی افغان حکومت میں 3 مزید وزرا کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے ہے۔ یہ خلیل الرحمن حقانی (وزیر مہاجرین)، عبدالباقی حقانی (وزیر اعلیٰ تعلیم) اور نجیب اللہ حقانی (کمیونی کیشن اور ٹیکنالوجی کے وزیر) ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جانا اور ملک کی لڑکھڑاتی معیشت کی بحالی نئی افغان حکومت کے سامنے دو بڑے چیلنج ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے افغان میڈیا کو انٹرویو میں کہا ہے کہ نائن الیون کے ذمہ داروں کو سزا دینے افغانستان گئے تھے۔ امریکہ افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہا اشرف غنی کو کابل سے نکلنے میں امریکہ نے مدد نہیں کی۔ یورپی یونین نے طالبان کی جانب سے اعلان کردہ عبوری حکومت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت جامع نہیں اور مختلف گروہوں کی نمائندگی کا وعدہ پورا کرنے میں ناکام ہے۔ یورپی یونین کے 27 ممالک نے طالبان کے ساتھ روابط بڑھانے کیلئے پانچ شرائط رکھی ہیں جس میں ایک جامع اور نمائندہ عبوری حکومت کی تشکیل بھی ہے۔ جرمنی چین اور جاپان نے طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے حوالے سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ حکومت کی تشکیل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ افغانستان کے حالات کے بارے میں زیادہ پر امید ہونے کی کوئی خاص وجہ نظر نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے گروہوں اور فریقین کی شرکت کے بغیر عبوری حکومت کا اعلان اور کابل میں مظاہرین اور صحافیوں پر تشدد ایسے اشارے نہیں ہیں جنہیں حوصلہ افزا تصور کیا جائے تاہم ہیکو ماس نے کہا کہ جرمنی طالبان سے بات چیت رکھنے کیلئے تیار ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ خوراک کی قلت اور بین الاقوامی ادائیگیوں میں رکاوٹ جیسے مسائل سے نمٹا جا سکے۔ روس نے کہا ہے کہ افغانستان کی نئی حکومت کی افتتاحی تقریب میں روسی سفارتی عہدیدار شرکت کریں گے۔