• news
  • image

بلاول کا پرتباک استقبال ذوالفقار کھوسہ کی جانب سے تلوار کا تحفہ

میاں غفار احمد

پاکستان تحریک انصاف جسے جنوبی پنجاب سے جھولیاں بھربھر کرووٹوں سے مرکز کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب بنایا گیا تھا،  اب عوام اس کی کارکردگی سے مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ وہی خطہ ہے جہاں ذوالفقار علی بھٹو نے سیاسی طور پر طفلِ مکتب غیر معروف نوجوانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر انہیں پارٹی ٹکٹ تقسیم کیے اور جتوایا لیکن آج  پیپلز پارٹی کو بھی اُسی جنوبی پنجاب سے الیکٹیبلز تلاش کرنے پڑرہے ہیں۔اس تمام صورتحال کے باوجودبلاول بھٹو زرداری کا دورہ جنوبی پنجاب مجموعی طور پر کامیاب رہا ۔اگر پیپلز پارٹی کی توجہ جنوبی پنجاب کی طرف یونہی برقرار رہی تو علیحدہ صوبہ بنانے ، امن و امان کی بحالی میں ناکام ہونے اور کرپشن کے خاتمے کے دعوے کی بجائے کرپشن میں ہوشربا اضافے جیسے مسائل نے کم از کم اس خطے کو ووٹرز کو تو حکومتی پارٹی سے دور کردیا ہے جس کا براہِ راست فائدہ پاکستان پیپلز پارٹی کو تادمِ تحریر ملتا ہوا نظر آہا ہے تاہم دیکھنا یہ ہوگا کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے فیصلے کیا ہوتے ہیں۔بلاول بھٹو نے اپنے دورہ کے دوران ڈیرہ غازی خان میں معروف شاعر محسن نقوی کے اہل خانہ سے ان کی موت کے 25 سال بعد ملاقات میں تعزیت کی ۔ یہ بات خاص طور پر نوٹ کی گئی کہ بلاول بھٹو اپنی والدہ اور نانا کے نقش قدم پر ورکرز کو موبلائز کررہے ہیں اور کارکنا ن سے رابطے بڑھا رہے ہیں۔ 
بلاول بھٹو زرداری کے جاری حالیہ چھ روزہ دورے میں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ سید یوسف رضاگیلانی نے جنوبی پنجاب کے کارکنوں کو تحریک دینے کیلئے مؤثر حکمت عملی کا استعمال کیا۔ میڈیا کوریج کا بھی خاص خیال رکھا گیا اور اپنا ابتدائی ہوم ورک مکمل کرنے کے بعد اس دورے کا شیڈول طے کیا گیا ۔ اب تک دستیاب معلومات کے مطابق جنوبی پنجاب کے دس سے زائد الیکٹیبلز جن میں پی ٹی آئی کے منتخب لوگ بھی شامل ہیں، پیپلز پارٹی میں شمولیت کا عندیہ دے چکے ہیں جبکہ ڈیرہ غازی خان کے کھوسہ خاندان کے حوالے سے پہلے بھی ایسی خبریں تھیں کہ ان کا اگلا پڑاؤ پیپلز پارٹی ہوگا اور بلاول بھٹو زرداری کا ان کے گھر جانا اور لیہ کی تحصیل کروڑ لعل عیسن سے بہادر خان سیہڑ کی پیپلز پارٹی میں شمولیت بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔
تلوار کے نشان پر 1970 میںپہلا اور 1977کا دوسرا الیکشن جیتنے والی پاکستان پیپلز پارٹی سے 1988ء کے عام انتخابات میں یہ انتخابی نشان چھین تو لیا گیا مگر بلوچ روایات کے امین سردار ذوالفقار کھوسہ نے اپنی رہائشگاہ پر بلاول بھٹو کااستقبال کیا تو انہیں تحفے میں تلوار ہی پیش کی گئی ۔وعدے وعید ہورہے ہیں مگر آمد رفت الیکشن کے قریب ہی شروع ہو  گی ۔اس صورت حال پر  سیاسی فہم و فراست  کے حامل پیپلز پارٹی کے ایک دیرینہ کارکن ملک الطاف کھوکھرنے بلاول بھٹو زرداری کے حالیہ دورۂ جنوبی پنجاب کے حوالے سے ایک ہی جملے میں پچاس سال کی داستان کہہ ڈالی ہے۔انہوں نے کہا کبھی پاکستان پیپلز پارٹی میں گمنام لوگ آکر الیکٹیبلز بنتے تھے، نوجوان مختار اعوان کو کون جانتا تھا اس نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر بڑا برج اُلٹا دیا مگر آج پیپلز پارٹی اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ الیکٹیبلز ڈھونڈنے پر مجبور ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری کا موجودہ دورہ جنوبی پنجاب بلا شبہ  ایک ایسے وقت پر ہورہا ہے جب حکومت کی مدت کے خاتمے میں ابھی دوسال باقی ہیں یہ کہیں قبل از وقت الیکشن کی تیاری یا کسی بیک چینل سے کسی اشارے کا نتیجہ تو نہیں ؟تجزیہ نگاروں کی نظریں اس جانب بھی مرکوز ہیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کے قائدین الیکشن سے اتنا عرصہ پہلے ہنگامی دورے نہیںکیا کرتے ۔وجوہات کچھ بھی ہوں تاہم  وہاڑی کی تحصیل میلسی کے نواحی قصبے جلہ جیم میں پیپلز پارٹی کا جلسہ ایک بڑا اجتماع تھا ۔ میلسی سے سابق ایم این اے محمود حیات المعروف ٹوچی خان پیپلز پارٹی سے پرانی وابستگی رکھتے ہیں۔انہوں نے جلہ جیم میں بلاول بھٹو زرداری کا ایک بڑا جلسہ اور ورکرز کنونشن رکھ کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ٹوچی خان پارٹی کے اندر کھل کر بات کرنے کے حوالے سے بھی اپنی پہچان رکھتے ہیں ۔ ایک مرتبہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کو ان کی وزارتِ عظمی کے دوران یہ کہہ کراُلجھا دیا تھا ’’ بی بی ہم ہی آپ کی آنکھیں اور کان ہوتے ہیں۔ ہمارا فرض ہے جو کانوں سے سنیں ، اور آنکھوں سے دیکھیں وہ آپ تک پہنچائیں ۔اس لئے آپ ہماری بات کو محض کو انفرادی بات نہ سمجھا کریں بلکہ ہماری باتوں کے پیچھے پورے حلقے کے عوام کے جذبات ہوتے ہیں اور بجائے ناراض ہونے کے محترمہ بینظیر بھٹو نے ٹوچی خان کی اس بات کو سراہا تھا۔ ‘‘
یہاں مختلف علاقوں میں کورونا کی صورتحال ایک مرتبہ پھر بگڑ چکی ہے اور جنوبی پنجاب کی حد تک انتظامیہ کا کہیں کنٹرول نظر نہیں آرہا ۔ ٹرینیں چل رہی ہیںمگر  بسیں بند ہیں ۔ جلسے جلوس ، دینی و سیاسی اجتماعات جاری ہیں تو مساجد پر ایس او پیز لاگو ہیں ۔ تعلیمی ادارے بند ہیں تو شاپنگ سنٹرز کھچا کھچ بھرے ہوئے دکائی دیتے ہیں ۔  صورتحال یہ ہے کہ حکومت کے پاس کسی ہسپتال کی کوئی تازہ ترین معلومات نہیں ۔ دستیاب معلومات کے مطابق گزشتہ دوہفتوں میں ملتان کے نواحی علاقے نواب پور میں ایک ہی خاندان کی دو خواتین  اور دو مرد کورونا کیوجہ سے موت کے منہ میں جاچکے ہیں مگر حکومتی اعداد وشمارمیں ایسی اموات کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔ اب انتظامیہ کی توجہ کورونا کے سدباب کی بجائے کورونا سے مالی مفادات کی طرف  مرکوز ہے ۔ اب ٹارگٹ کورونا کنٹرول  نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ جرمانوں  کا حصول ہے ۔
فرمان ربی ہے کہ ’’ اللہ جب ناراض ہوتا ہے تو بے موسمی بارشیں ہوتی ہیں ۔‘‘ لگتا ہے اس مرتبہ کپاس کے کاشتکار سے اللہ راضی ہے اور پنجاب و سندھ کا سارا علاقہ جو کاٹن بیلٹ کہلاتا ہے ۔ یہاں بہت کم بارشیں ہوئیں بلکہ بعض علاقوں میں تو ہوئی ہی نہیں ۔موسم نے جہاں کپاس کی فصل کو سپورٹ کیا وہاںجڑی بوٹیوں کے سپرے سے بھی اچھے نتائج سامنے آئے اور اب تک کی معلومات کے مطابق کپاس کے کاشتکار کو پچھلے دس سال میں پُھٹی کی سب سے زیادہ قیمت  سالِ راں میں مل رہی ہے جو 6 ہزار فی من کو کراس کرگئی ہے ۔ گزشتہ سال پاکستان میں کپاس کی پیداوار 5.8  ملین بیلز تھیں اور ماہرین اس مرتبہ ایک لاکھ کے ٹارگٹ کی توقع کیے بیٹھے ہیں۔ یاد رہے کبھی پاکستان ڈیڑھ لاکھ بیلز تک بھی پہنچا تھا ۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

epaper

ای پیپر-دی نیشن