• news
  • image

سندھ سے بڑے سیاستدان جلد پی ٹی آئی میں شامل ہونے کی نوید

ندیم بسرا 
پی ٹی آئی حکومت کا دعویٰ ہے کہ تین سالوں میں ملک کی معاشی، تجارتی اور خارجہ پالیسی کی سمت درست کردی ہے، اب آئندہ دوسالوں میں حکومت کی ترجیح عام آدمی کی مشکلات اورمہنگائی کو کم کرنے پر مرکوز ہوگی۔بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں نے بھی پاکستان کی معاشی رفتار کو بہترین قرار دیا ہے۔ حکومت کی دانشمندانہ پالیسیوں سے معاشی سمت درست ہوئی، تجارتی اعتماد بڑھا اور محصولات میں اضافہ ہوا ہے، تجارتی خسارہ پائیدار سطح پر ہونے سے معیشت کو تقویت ملے گی،گزشتہ مالی سال شرح نمو 4 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے،اسی طرح حکومت نے کامیاب جوان پروگرام کے ذریعے30 ہزار نوجوانوں کو روزگار فراہم کردیا گیا،ان میں 83 فیصد مرد اور 17 فیصد خواتین کو قرض دیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت سنبھالی تو ٹیکس وصولیاں 3800 ارب تھیں اب 4700 ارب ہیں، زرمبادلہ ذخائر 16.4 ارب ڈالر سے 27 ارب ڈالر ہوچکے، اقتدار سنبھالا تو 20 ارب ڈالر خسارہ تھا آج 1.8 ارب ڈالر ہے، پنجاب کی اینٹی کرپشن نے ن لیگ دور میں ڈھائی ارب ریکور کیے، ہمارے 3 سال میں اینٹی کرپشن نے ساڑھے400 ارب ریکور کیے، نیب نے اپنے 18سال میں 290 ارب روپے ریکور کیے، ہمارے تین سال میں نیب نے 519 ارب روپے ریکور کیے، حکومتی ترجمانوں کے نزدیک عوام پی ٹی آئی کی خارجی،معاشی اور عوام دوست پالیسیوں کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے، آئندہ حکومت پھر پی ٹی آئی کی ہوگی،عوامی سروے بھی پی ٹی آئی کی سپورٹ کررہے ہیں۔ 
حالیہ گیلپ سروے میں70 فیصد عوام نے پی ٹی آئی حکومت کی مدت مکمل ہونے کی امکان ظاہر کردیا، سروے میں 69 فیصد افراد کورونا کیخلاف حکومتی کارکردگی سے مطمئن دکھائی دیے، 48 فیصد نے کرپشن کیخلاف حکومت کو کامیاب،58 فیصد خارجہ پالیسی اور 45 فیصد عوام معاشی محاذ پر حکومتی کوششوں سے مطمئن دکھائی دی ، حکومتی کارکردگی کی بنیاد پر 2023ء کا الیکشن تحریک انصاف جیتے گی،وزیراطلاعات فواد چودھری نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ تحریک انصاف آئندہ الیکشن میں سندھ حکومت بھی بنائے گی،سندھ سے جلد بڑے بڑے سیاستدان پی ٹی آئی میں شامل ہوجائیں گے، سندھ میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی بڑی تعداد میں نشستیں نکالیں گے۔ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی واحد حکومت ہے جو عام انتخابات میں دھاندلی روکنے کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال کیلئے اصلاحات کررہی ہے، آصف زرداری اور نوازشریف انتخابات میں اصلاحات نہیں چاہتے، کیونکہ یہ دھاندلی کے بغیر کبھی الیکشن نہیں جیت سکتے، مریم نوازاور بلاول بھٹواسی وقت وزیراعظم بن سکتے ہیں،جب دھاندلی ہوگی اورپاکستانیوں کی قسمت خراب ہوگی۔ اس کے ساتھ حکومت کیلئے آئندہ انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال ممکن بنانا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال مسترد کرتے ہوئے مشین کے استعمال پر37اعتراضات اٹھا دیے ہیں،الیکشن کمیشن نے تفصیلی رپورٹ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں جمع کروا دی ہے، الیکشن کمیشن نے اعتراض لگایا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے ووٹر کی شناخت گمنام نہیں رہے گی، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر دیکھا نہیں جاسکتا،مشین کو بآسانی ٹیمپر اور سافٹ ویئر تبدیل کیا جاسکتا ہے،الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے شفاف انتخابات ممکن نہیں، ای وی ایم کے استعمال سے دھاندلی نہیں روکی جاسکتی، مشین ہیک ہوسکتی ہے،مشین میں ووٹ کی اور ووٹ ڈالنے والے کی کوئی سیکریسی نہیں ہے، الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے کم ازکم خرچہ 150ارب روپے آئے گا، خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود الیکشن کی شفافیت اور ساکھ مشکوک رہے گی۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین کس کی تحویل میں رہے گی کچھ نہیں بتایا جارہا، ویئرہاؤس اور ٹرانسپورٹیشن کے دوران مشینوں کے سافٹ ویئر تبدیل کیے جاسکتے ہیں،بلیک باکس میں شفافیت پر سوال اٹھ سکتا ہے، الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر عوام کا اعتماد ہے اور نہ ہی اسٹیک ہولڈر متفق ہیں،اپوزیشن جماعتیں یہ کہتے ہوئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال مسترد کرچکی ہیں کہ انتخابات میں آرٹی ایس تو چلا نہیں سکتے اور اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ والے ملک میں الیکٹرانگ ووٹنگ کیسے کامیاب ہوگی، یکطرفہ آرڈیننس تسلیم نہیں کریں گے۔دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے بھی آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کیلئے متحرک ہوگئی ہیں، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹوکی طرف سے جنوبی پنجاب میں جلسے اور ریلیوں کا انعقاد کیا جارہا ہے، پیپلزپارٹی میں مختلف سیاسی جماعتوں رہنمائ￿  اور ٹکٹ ہولڈرز بھی شامل ہورہے ہیں، بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کی تیاری شروع کردی ہے، عوام کی حمایت سے وفاق اور پنجاب میں بڑی تعداد میں نشستیں جیتیں گے،جیالے تیاری کرلیں آئندہ حکومت پیپلزپارٹی کی ہوگی، پی ڈی ایم کے حوالے سے کہا کہ پیپلزپارٹی پہلے پنجاب اور پھر قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائے گی، اپوزیشن راضی ہوگئی تو عدم اعتماد کامیاب ہوجائے گی، اسی طرح اگر مسلم لیگ ن کی سیاست کو دیکھا جائے تو کہا جاتا ہے شہبازشریف اور مریم نواز کی وجہ سے پارٹی کا بیانیہ دوحصوں میں تقسیم ہے، لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ ن کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ، پارٹی صدر شہبازشریف مقتدر حلقوں اور اپنے قائد نوازشریف جو کہ ایک تسلسل کے ساتھ مزاحمتی بیانیہ جاری رکھے ہوئے ہیں ان کے درمیان اپنے مفاہمتی بیانیہ کے ذریعے پْل کا کردار ادا کررہے ہیں یا پھردرمیان میں لٹکے ہوئے ہیں،ن لیگی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سیاست میں مزاحمتی اور مفاہمتی بیانیہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، مریم نواز جب بھی عوام میں آتی ہیں اس میں نوازشریف کے ساتھ پارٹی صدر شہبازشریف کی حمایت بھی شامل ہوتی ہے، اسی طرح مریم نواز کی خاموشی کے پیچھے بھی پارٹی پالیسی شامل ہوتی ہے، شہبازشریف آئندہ انتخابات کیلئے متحرک ہیں ، پچھلے دنوں دورہ کراچی میں سربراہ فنکشنل لیگ سے ملاقات کی، جس میں پیرپگاڑا نے دورہ لاہور کی دعوت قبول کی، ایک بات طے ہے آئندہ وفاقی حکومت بنانے کیلئے ساری جماعتوں کی نظریں پنجاب پر لگی ہوئی ہیں، لیکن پیپلزپارٹی یا پی ٹی آئی کو پنجاب میں مسلم لیگ ن کا مقابلہ کرنے کیلئے ترین گروپ اور مسلم لیگ ق کی حمایت ناگزیر ہے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛ 

epaper

ای پیپر-دی نیشن