افغانستان سے روپے میں تجارت ہوگی ، معاملات چلانے کیلئے پاکستانی بھجواسکتے ہیں:شوکت ترین
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ افغانستان کو ڈالر کی کمی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، اس لیے افغانستان کے ساتھ تجارت ڈالر میں نہیں پاکستانی روپے میں ہو گی۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک نے افغانستان کے ڈالر روک رکھے ہیں۔ افغانستان کی صورت حال کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لیا جا رہا ہے۔ افغانستان میں مختلف معاملات چلانے کے لیے پاکستان سے بھی لوگوں کو بھیجا جا سکتا ہے۔ فوڈ پرائس ملک میں سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اپریل مئی سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھ رہا ہے۔ پائیدار شرح نمو نہ ہونے کے باعث آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تھا۔ ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں مالی سال 2021-22 کے فنانس بل میں قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی جانب سے دی گئی سفارشات پر عملدرآمد، چیئرمین سینٹ محمد صادق سنجرانی کی جانب سے بھیجے گئے معاملہ برائے صوبہ بلوچستان کے علاقے چاغی کی عوام کے ساتھ کسٹمز کلکٹریٹ کی طرف سے نا انصافی و امتیازی سلوک، 13 جولائی2021 کو منعقد ہونے والے سینٹ اجلاس میں سینیٹر سید فیصل علی سبزواری کی جانب پیش کی گئی قرار داد برائے کم آمدن تنخواہ دار طبقے اور چھوٹے تاجروں کیلئے ٹیکس سے استثنیٰ کے معاملے کے علاوہ چیئرمین سینٹ کی جانب سے عوامی عرضداشت کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ وزیر خزانہ شوکت فیاض احمد ترین اور چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد اشفاق احمد نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اچھی سفارشات مرتب کی تھیں جن کو متعلقہ پراسس سے گزارا گیا۔ کل 110 سفارشات تھیں جن میں 46 مخصوص اور 64 جنرل تھیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 110 سفارشات میں سے 51 سفارشات کو بجٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود نے وزیر خزانہ سے استفسار کیا کہ افغانستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں ملکی تجارت، ایکسپورٹ، امپورٹ اور مجموعی طور پر ملک پر کیا اثرات مرتب ہونگے‘ کے جواب میں بتایا گیا کہ ان دو ماہ میں معاشی صورتحال صحیح نظر آرہی ہے۔ آمدن بڑھ رہی ہے۔ شوکت ترین نے کہا افغانستان کے زرمبادلہ کے دس ارب ڈالر روک لیے گئے۔ آئی ایم ایف اور عالمی بنک نے بھی افغانستان کے 450 ارب ڈالر روک لئے ہیں۔ پاکستان پر دباؤ پڑے گا۔ پاکستان کے ساتھ افغانستان کی تجارت بڑھے گی اور لین دین روپے میں ہوگا۔ اگلے چند ہفتوں میں چیزیں واضح ہونگی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزیر خزانہ نے قائمہ کمیٹی کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ایف بی آر کی جانب سے لوگوں کو نوٹسز جاری نہیں کیے جائیں گے اور جو جاری کیے گئے وہ واپس لئے جائیں اس پر کتنا عمل کیا گیا ہے۔ بزنس کمیونٹی بہت پریشان ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ نے جب چارج سنبھالا تھا تو یو ایس ڈالر کی قدر 152 روپے تھی اب 170 کے قریب پہنچ چکا ہے۔ جس پر وزیر خزانہ نے کہا کہ سٹیٹ بینک اس پر کام کر رہا ہے۔ انہوں نے ہی ڈالر کا لیول طے کرنا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کامیاب پاکستان پروگرام ستمبر کے آخری ہفتے تک شروع کیا جائے گا اور اس میں شروعات صوبہ خیبرپی کے اور صوبہ بلوچستان سے کی جائے گی۔ سینیٹر فیصل رحمن نے کہا کہ افغانستان میں فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے ہمارا کیا لائحہ عمل ہوگا اور سسٹمز کو ہیک کیا جارہا ہے۔ سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ روز مرہ کے اخراجات کی وجہ سے لوگ خاصے پریشان ہیں۔ خاص طور پر غریب اور کم آمدن والے لوگ بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ڈالر کی قدر میں روز اضافہ ہورہا ہے اس کو کنٹرول کرنے کیلئے کیا میکنزم اختیار کیا گیا ہے۔ جس پر وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ 2018-19 میں روپے کی قدر گرانی پڑی جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ لوگوں کے کاروبار متاثر ہوئے۔ طلب اور گروتھ ریٹ میں کمی ہوئی۔ فوڈ آئٹمز کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ پٹرولیم مصنوعات میں بھی 74 فیصد بین الاقوامی سطح پر اضافہ ہوا جبکہ پاکستان میں کم ریٹ پر اضافہ کیا گیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کھانے کی 10 اشیاء کی انجینئرنگ کرائی جا رہی ہے۔ کسانوں سے پانچ روپے فی کلو اشیا خرید کر صارفین کو 30 روپے کلو ملتی ہے۔ اس کو ٹھیک کرنے کا میکنزم بنایا جارہا ہے۔ ACs اور DCs کو ذمہ دار بنایا جائے گا۔ منڈیوں کے چیئرمین لگائے جائیں گے۔ پیداوار میں اضافہ اور کولڈ سٹوریج تعمیر کیے جائیں گے۔ سینیٹر سید فیصل علی سبزواری نے کہا کہ گزشتہ کمیٹی نے اجلاس میں سفارش کی تھی اس پر عمل کیا گیا ہے کہ نہیں۔ جس پر وزیر خزانہ نے کہاکہ آئی ایم ایف نے 150 ارب کا مزید ٹیکس لگانے کا کہا تھا جس سے انکار کر دیا گیا ہے۔ ہم عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ ابھی یہ معاملہ نہ اٹھایا جائے بعد میں اس پر عملدرآمد کر لیا جائے۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے مجسٹریٹ کو ذمہ داری دی جائے اور سپیشل مجسٹریٹ لگائے جائیں۔ انتظامی امور کی کمی کی وجہ سے مہنگائی پر قابو نہیں پایا جارہا۔ ایک مارکیٹ میں اشیاء کی چار چار قیمتیں ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اب لوگو ں کو نوٹسز جاری نہیں کیے جا رہے اور جن کو بھیجے گئے ہیں وہ بھی واپس لے لئے جائیں گے۔ گورنر سٹیٹ بینک نے کمیٹی کو بتایا کہ اس عوامی عرضداشت میں جو معاملات اٹھائے گئے ہیں وہ میرٹ پر نہیں ہیں۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی کے انتقال کے حوالے سے اظہار افسوس اور ان کی کشمیریوں کیلئے جدوجہد آزادی کے حوالے سے خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے متفقہ طور پر قرارداد بھی پاس کی گئی۔ عطاء اللہ مینگل کی وفات پر گہرے دکھ و افسوس اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی خدمات کو خراج عقید ت پیش کرنے کیلئے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی گئی۔ یوم دفاع کے حوالے سے 1965 اور1971 جنگوں کے شہدا کے ایصال ثواب و درجات کی بلندی اور لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ سینیٹر محمد طلحہ محمود نے علی گیلانی، عطاء اللہ مینگل اور شہدا پاکستان کیلئے دعائے مغفرت بھی کرائی۔ شوکت ترین نے بتایا انڈین ہیکرز نے 7 روز ایف بی آر کا سسٹم ہیک رکھا۔ بین الاقوامی ماہر کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔ سائبر ڈیٹا تک نہیں پہنچ سکے۔ 5 روز میں سسٹم ٹھیک کرلیا۔