بابا فرید شکر گنج ؒاور دوسرے اولیائے کراؒم کا پنجاب
معزز قارئین ! سابق صدر آصف علی زرداری اور اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی پارٹیوں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز اور پاکستان مسلم لیگ (ن) "Love–Hate Relationship" چلی آ رہی ہے لیکن، پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے سے دونوں کو دلچسپی ہے۔اِسی کو تو سیاست کہتے ہیں ؟
’’ پنجاب کے دو سرکاری بڑے ؟ ‘‘
20 اگست 2018ء کو سردار عثمان احمد خان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہُوئے تھے تو اخبارات میں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور ، سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار کو پنجاب کے تین بڑے کہا جاتا تھا ! ‘‘ ۔
7 ستمبر کووفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چودھری فواد حسین کے اعلان پر خاص بات یہ ہے کہ ’’ سرکاری بڑوں ‘‘ پنجاب کے نئے چیف سیکرٹری کامران افضل صاحب اور نئے آئی جی پولیس (Inspectors General of Police) رائو سردار علی خان کی صلاحیتوں کا بہت چرچا ہو رہا ہے ۔ اب پنجاب کے عوام کو یہی کہہ کر تسلی دِی جاسکتی ہے کہ ’’ اگے تیرے بھاگ ، لچھیّے! ۔
’’ بابا فرید شکرگنج ؒ ؒ ! ‘‘
خاتونِ اوّل پاکستان محترمہ بشریٰ بی بی کا تعلق وٹو راجپوت خاندان سے ہے اور وہ عرصہ دراز سے چشتیہ سلسلہ کے ولّی اور پنجابی زبان کے پہلے شاعر بابا فرید اُلدّین مسعود شکر گنج ؒکی عقیدت مند تھے اور پھر وزیراعظم عمران خان بھی۔ تو شادی ہوگئی ! ‘‘ ۔
معزز قارئین ! بابا فرید اُلدّین مسعود شکر گنج ؒ (1175ئ۔ 1265ء ) کی زندگی کا خاص پہلو یہ ہے کہ ’’ آپ ؒ ہندوستان میں خاندانِ غلاماں کے بادشاہ ، سُلطان غیاث اُلدّین بلبن (1266ء ۔ 1286ئ) کے داماد تھے لیکن آپؒ نے اپنے سُسر بادشاہ سے کسی قسم کی مراعات حاصل نہیں کی تھیں ۔آپؒ دِلّی سے پاکپتن تشریف لائے تھے اور پھر تاحیات یہیں قیام کِیا۔
’’میرے دو دوست! ‘‘
معزز قارئین ! 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں۔ ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامیؒ نے اُنہیں مادرِ ملّت کا خطاب دِیا تھا۔
مادرِ ملّت کی صدارتی مہم سے کچھ دِن پہلے سرگودھا میں اُن کی انتخابی مہم کے انچارج اور تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن قاضی مُرید احمد مجھے اور میرے صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقت کو ادرِ ملّت سے ملاقات کرانے کیلئے لاہور لائے تھے ، آپ ؒ کونسل مسلم لیگ کے ایک لیڈ ر میاں منظر بشیر کے گھر مقیم تھیں ، جہاں تحریک پاکستان کے دو کارکن لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسریؒ اور پاکپتن شریف کے میاں محمد اکرم طور ؔ ؒکی بھی مادرِ ملّتؒ سے ملاقات ہُوئی پھر وہ دونوں صاحبان میرے دوست بن گئے۔
مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری ؒ( چیئرمین پیمرا ، پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ کے والد محترم ) اور میاں محمد اکرم طورؒ سعید آسیؔ صاحب کے والد محترم) تھے۔ میا ں محمد اکرم طور ؒ صاحب تو بابا فرید شکر گنج ؒ کے عقیدت مند تھے اور اُنہیں بابا جی کا کلام از بر تھااور مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری ‘ غوث اُلاعظم شیخ عبداُلقادر جیلانی / گیلانی ؒ کے سلسلہ ’’ القادریہ ‘‘ کے ایک ولّی ، قصور کے بابا بُلھیّ شاہؒ (1680ء 1757ئ) کے عقیدت مند تھے اور وہ بھی بابا جی کے کلام کے بہت شیدا تھے ۔
’’ بابا فرید ؒ کے چند دوہے ! ‘‘
معزز قارئین ! فی الحال مَیں ’’ روٹی‘‘ کے مسئلے پر بابا فرید گنج شکر ؒ ؒ کے صِرف 2 دوہے پیش کر رہا ہُوں۔ ایک دوہے میں آپؒ نے فرمایا کہ …
فریداؔ! روٹی میری کاٹھ دِی، لاہون میری بُھکّھ !
جنہاں کھاہدی چوپڑی ، گھنے سہن گے دُکھ !
…O…
یعنی ’’ اے فریدؔؒ! میری روٹی لکڑی کی ہے جو میری بھوک اتارتی ہے اور چُپڑی روٹی ( پراٹھے ) کھانے والے ( اُمرا ئ، خاص طور پر بد عنوان لوگ (آخرت میں ) بہت دُکھ برداشت کرینگے ‘‘۔ دوسرے دوہے میں بابا جیؒ نے اپنے حوالے سے غریب غُرباء کو مشورہ دِیا کہ
فریداؔ !رُکھّی سُکھّی کھا کے ، ٹھنڈا پانی پی!
دیکھ پرائی چوپڑی ، نہ ترساویں جی!
…O…
یعنی ’’ اے فریدؔ ! رُوکھّی سُوکھّی روٹی کھا کے اور ٹھنڈا پانی پی کر ( زندگی بسر کر ) لیکن دوسرے لوگ جب چُپڑی روٹی کھارہے ہوں تو اُنہیں دیکھ کر اپنا جی نہ ترسا ‘‘۔
’’ بابا بُلھّے شاہ ؒ ! ‘‘
معزز قارئین ! 1970ء کے عام انتخابات میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے ’’ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کِیا تو مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری ؒ کہا کرتے تھے کہ ’’ بھٹو صاحب نے قصور کے ( قادریہ سلسلہ کے ولی ) بابا بُلّھے شاہ کے کلام سے متاثر ہو کر یہ نعرہ تخلیق کِیا ہے۔ بابا بُلّھے شاہ نے تو بہت پہلے اللہ کے بندوں کو اللہ سے یہ دُعا مانگنے کی تلقین کی تھی کہ …
منگ اوئے بندیا، اللہ کولوں،
گُلّی ‘ جُلّی ، کُلّی!
…O…
یعنی ’’ اے بندے ! تو اللہ سے روٹی ، کپڑا اور مکان مانگ ‘‘۔
معزز قارئین ! مرزا شجاع اُلدین بیگ امرتسریؒ ، ’’ مر کر بھی نہ مرنے والوں ‘‘ ( شہیدوں کے بارے ) بلھے شاہ کا بار بار یہ شعر پڑھا کرتے تھے کہ …
بُلھّے شاہ اَساں مرنا نا ہیں
گور پیا کوئی ہَور !
…O…
یعنی ’’ بُلھّے شاہ ! شُہداء مرے نہیں ، اُن کی قبروں میں تو کوئی اور پڑا ہے ! ‘‘۔
’’کالے لِکھ نہ لیکھ!‘‘
معزز قارئین! "Four Pillers of the State" ( ریاست کے چار ستونوں ) کا نظام بعد میں منظر عام پر آیا لیکن بابا فرید شکر گنج ؒنے
-1 پارلیمنٹ (Legislature)
-2 حکومت (Executive)
-3 جج صاحبان (Judiciary) اور
-4 اخبارات اور نشریاتی اداروں (Media) کو اپنے اِس دوہے میں پہلے ہی ہدایت کردِی تھی کہ …
فریداؔ! جے تُوں عقل لطیفؔ ، کالے لِکھ نہ لیکھ!
آپنے گریوان میں سِر نِیواں کر دیکھ !
…O…
یعنی ’’ اے فریدؔ ! اگر تو باریک بین عقل رکھتا ہے تو ’’ کالے لیکھ‘‘ ( سیاہ تحریریں اور احکامات ) نہ لکھ بلکہ لکھنے سے پہلے سر نیچا کر کے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ ‘‘۔معزز قارئین ! دیکھنا یہ ہے کہ ’’ پاک پنجاب کا نیا دَور کیسا ہوگا؟