• news
  • image

سراج الحق کی افغان پالیسی اور مہمان نواز سید شوکت علی!!!!!

ان دنوں پوری دنیا کی نظریں افغانستان پر ہیں۔ تمام طاقتور ممالک اپنے اپنے انداز میں افغانستان کے مستقبل کا نقشہ کھینچ رہے ہیں۔ دنیا کے بہترین دماغ بھی کسی ممکنہ نتیجے تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو رہے سب اندازے لگا رہے ہیں۔ ہر کسی کا اپنا ایک اندازہ، نقطہ نظر اور سوچنے کا انداز ہے لیکن کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ افغانستان کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے، کیا وہاں امن قائم ہو سکے گا یا نہیں، کیا طالبان افغانستان کے عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب ہو سکیں گے، کیا طالبان قیادت افغانستان کے دیرینہ مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے، کیا دنیا طالبان کو تسلیم کرتی ہے یا نہیں، کیا طالبان نے ماضی کی غلطیوں یا واقعات سے کچھ سیکھا ہے یا نہیں اس بارے کوئی بھی حتمی رائے پیش کرنے میں ناکام ہے۔ البتہ فکر سب کو لاحق ہے۔ اسی فکر کو دیکھتے ہوئے میں نے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی رائے جاننے کا بہانہ نکالا۔ لندن سے جماعت اسلامی کے دیرینہ کارکن اور وہاں اپنی جماعت کا روشن چہرہ سمجھے جانے والے شوکت علی کو کرونا نے اجازت دی تو وہ پاکستان کا چکر لگانے آن پہنچے۔ امیر جماعت اسلامی اور سید شوکت علی کے دوستوں کو عشائیے پر اکٹھا کیا۔سید شوکت علی سے میری دوستی بہت پرانی ہے۔ شاید جتنی پرانی ان کی جماعت اسلامی سے وابستگی ہے یہی حال ہماری دوستی کا ہے۔ سید شوکت علی مہمان نواز، محنتی، ایماندار، پاکستان سے محبت کرنے والے، دوستوں کی عزت میں اضافے کا باعث بننے اور دوستی نبھانے کی خوبیوں سے مالا مال ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ لندن میں ان سے بہتر کوئی مہمان نواز نہیں ہے۔ سید شوکت علی اپنے مہمان کو پورا وقت دیتے ہیں، پردیس کا احساس نہیں ہونے دیتے۔ لندن میں لوگوں کے پاس سب سے زیادہ کمی وقت کی ہوتی ہے۔ ہر شخص بہت مصروف ہوتا ہے لیکن سید شوکت علی کی خوبی یہ ہے کہ مہمان کے لیے اپنی تمام مصروفیات ترک کر دیتے ہیں۔ سید شوکت علی کو وہاں پاکستانی کمیونٹی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ انہوں نے کاروبار میں ترقی بھی کی ہے اور نیک نامی بھی کمائی ہے۔ لندن ہے مذہبی حلقوں میں انہیں اہم مقام حاصل ہے۔ 
دوستوں سے ملاقات کے لیے نہایت کم وقت میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق اپنی مصروفیات ترک کر کے اسلام آباد سے لاہور پہنچے۔ عشائیہ میں جماعت اسلامی کے فرید احمد پراچہ، امیر العظیم، محمد اصغر، قیصر شریف، سینئر صحافی نصر اللہ ملک، اوریا مقبول جان، ایثار رانا، مزمل سہروری، طاہر ملک، عبدالمجید ساجد، انوار حسین ہاشمی، احمد ولید، محمد عثمان، ہمایوں سلیم اور رفیق سلطان سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے محفل کو رونق بخشی۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ جہاں اوریا مقبول ہوں وہاں کسی اور کو بولنے کا موقع کم ہی ملتا ہے لیکن پھر بھی نصر اللہ ملک اپنے لیے وقت نکال ہی لیتے ہیں۔ دونوں دلائل کی گفتگو میں مہارت رکھتے ہیں۔ شہر کے باخبر، متحرک اور اہم صحافیوں کی موجودگی میں آپ جانتے ہیں کہ کیسی کیسی خبریں زیر بحث آ سکتی ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے صحافی بھی تھے جنہوں نے برسوں مختلف اداروں میں اکٹھے کام کیا ہے یوں یہ لوگ ایسی محافل سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ قہقہے لگ رہے تھے کہ پیغام ملا سراج الحق پہنچ گئے ہیں میں ان کے استقبال کے لیے گیا۔ سراج الحق صاحب شرکاء  سے اپنے روایتی انداز میں ملے۔ اخلاص امیر جماعت کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ ایسی سادگی بھی سیاست دانوں میں کم ہی ملتی ہے۔ جب سراج الحق کو ہر طرف شناسا چہرے نظر آئے تو امیر العظیم سے کہنے لگے کہ ایسی تقریب آپ بھی کیا کریں۔ اس جملے پر سب بے اختیار ہنس دیے۔ سید شوکت علی نے عشائیے کے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ خود کو لندن میں پاکستان کا سفیر سمجھتا ہوں۔ انگلینڈ میں پاکستانی کمیونٹی ملک و قوم کس نام روشن کر رہی ہے۔ یہاں موجود کئی دوستوں سے کرونا کی وجہ سے لندن میں ملاقات کا موقع نہیں مل رہا۔ کوئی بھی پاکستانی وہاں آتا ہے تو اس کی خدمت اور دیکھ بھال ہمارا فرض ہے۔ ہم پاکستان کو ترقی کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ شوکت علی کے بعد امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے مختصر خطاب کیا انہوں نے افغانستان کی موجودہ صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "یہ پہلا موقع ہے کہ خود کو سپر پاور سمجھنے والے امریکہ کے صدر کو رونا پڑا ہے۔ ہم تو ہمیشہ اپنا دفاع ہی کرتے رہے ہیں یہ پہلا موقع ہے کہ ہم مسلمان بھائیوں کو فتح یاب دیکھ رہے ہیں۔ وہ جنہیں اپنی طاقت، دولت اور ہتھیاروں پر بہت ناز تھا وہ رسوا ہو کر افغانستان سے نکلے ہیں۔ سینئر صحافی مزمل سہروردی کے سوال پر امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو لمحہ اول میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ پاکستان کو اس حوالے سے کسی کی طرف دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ طالبان کو ہر لحاظ سے سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی افغانستان میں واپسی ہم سب کے لیے بھی سبق ہے کہ ہم رحمان کے بندے بن جائیں۔ دشمن جھوٹی اور بے بنیاد خبریں چلا رہا ہے۔ افغان حکومت کثیر الافغان ہی ہے جو لوگ حکومت میں شامل افراد سے واقف نہیں وہ کم علمی کی وجہ سے حقائق کے منافی بات چیت کر رہے ہیں۔ طالبان نے عبوری حکومت میں تمام طبقات کو شامل کیا ہے۔ ہمارے لیے یہ بھی سبق ہے کہ وہ شخص جس نے برسوں گوانتانامو بے میں قید کاٹی وہ سب سے پہلے اشرف غنی کے صدارتی محل میں داخل ہو رہا تھا۔ طاقت کا مرکز اللہ کی ذات ہے۔ ہمیں اللہ کی طرف جھکنا چاہیے"۔
افغانستان میں طالبان کی آمد کو مثبت سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستان نے امریکی افواج کے انخلا اور مذاکرات کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب حالات بدل چکے ہیں پہلے وہاں امریکہ بہت پیسہ خرچ کرتا تھا اب ساری ذمہ داری طالبان پر ہے۔ پاکستان طالبان کو تسلیم کر بھی لیتا ہے تو ان کی مالی ضروریات پوری کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ طالبان کو کھلے دل کے ساتھ لوگوں کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا پاکستان تو طالبان کو قبول کر لے گا لیکن کیا طالبان مخالف سوچ رکھنے والوں کو قبول کریں گے؟؟؟

epaper

ای پیپر-دی نیشن