دنیا افغانستان میں معاشی بحران پر قابوپانے کیلئے فنڈ دے: اقوام متحدہ
نیویارک (شنہوا+اے پی پی+ این این آئی) اقوام متحدہ نے افغانستان کی امداد کے لیے پیر کو ایک کانفرنس طلب کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے تاہم مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور اس حوالے سے مستقبل کی حکمت عملی بھی نہیں طے کی جا سکی ہے، اس لیے بیرونی امداد کا فوری امکان کم ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش نے دنیا پر زور دیا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ بات چیت جاری رکھیں ۔ انہوں نے گزشتہ روز فرانسیسی خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں کہا کہ ہمیں طالبان کے ساتھ بات چیت کا تسلسل برقرار رکھناہو گا جو افغان عوام کے ساتھ یکجہتی کا احساس ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم شدید مشکلات سے دوچار افغانستان کے عوام کے ساتھ یکجہتی جاری رکھیں جہاں لاکھوں افراد بھوک سے مر سکتے ہیں اور دنیا افغانستان میں معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے مددکرے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مالی اثاثوں سے افغانستان کی معیشت کو سہارا ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ بات چت کے کیا نتائج برآمد ہوں گے اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے لیکن ہم اتنا چاہتے ہیں کہ افغانستان دہشت گردی کا مرکز نہ بنے، خواتین اور لڑکیوں کو ان کے تمام حقوق حاصل ہوں، مختلف نسلی گروہوں کو نمائندگی حاصل ہو۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ افغانستان میں جامع حکومت کی تشکیل کا خواہشمند ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام کے ساتھ ساتھ لوگوں کے حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان چاہتے ہیں کہ انہیں دنیا میں تسلیم کیا جائے، ان کی مالی مدد کی جائے اور پابندیاں ختم کی جائیں جو بین الاقوامی برادری کے لیے فائدہ مند ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ برائے افغانستان ڈیبوراہ لیونز نے دنیا پر زور دیا ہے کہ وہ طالبان حکومت سے متعلق خدشات کے باوجود افغانستان کی مالی مدد کریں بصورت دیگر پہلے سے ہی غربت کے شکار ملک کے حالات تاریخی تباہی سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ روزسلامتی کونسل کے اجلاس میں دنیا سے مطالبہ کیا کہ وہ طالبان حکومت کومعاشی بدحالی سے نمٹنے اور انتظامی امور چلانے کا موقع دیں اور فریقین کو بقائے باہمی کو یقینی بنانے دیا جائے اور فوری طور پر افغانستان میں معاشی اور سماجی تباہی سے بچنے کے لیے مالی مدد کی جائے افغانستان سے مہاجرین کی ایک بڑی لہر پیدا ہوسکتی ہے اور درحقیقت افغانستان کئی عشرے مزید پیچھے جاسکتا ہے۔