روپے کی ناقدری ‘مہنگائی آئی ایم ایف کیساتھ معاہدہ کا شاخسانہ
اسلام آباد (عترت جعفری) ڈالر کی قدر ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور ستمبر پہلے دس روز میں ڈالر کی قیمت فروخت میں ایک روپے کا اضافہ ہو چکا ہے، ملک کے اندر موجود فوریکس کے کاروبار سے منسلک افراد نے ڈالر کی مہنگائی اور روپے کی ناقدری کو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کا شاخسانہ قرار دیا ہے، ڈالر کی آئے روز قیمت میں اضافہ ہی ملک کے اندر مہنگائی کی اصل وجہ ہے، فارئکس مارکیٹ سے ھاصل کردی اعداد وشمار کے مطابق یکم ستمبر کو ڈالر کی قیمت فروخت 168.15روپے تھی جوگیارہ ستمبر کو بڑھ کر 169.15روپے ہو گئی۔ ڈالر کی قدر میں یہ اضافہ اگست میں بھی تسلسل سے جاری رہا، گزشتہ روز ڈالر 167.90روپے میں خریدا گیا اور 169.15 روپے میں فروخت کیا گیا، مارکیٹ میں موجود افراد کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ ملک کے اندر درآمدات ہیں، جبکہ ڈالر کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو تا چلا جا رہا ہے، عالمی مارکیٹ میں کرونا کے اثرات کی وجہ سے مارکیٹ چین رکاوٹ پڑنے کے باعث درآمدات کی لاگت بھی بڑھ گی ہے، جس کے اثرات شدید طور پر ملکی صارف مارکیٹ پر پڑے ہیں، افغانستان کی بے یقینی نے بھی ڈالر کی قیمت کو متاثر کرنا شروع کیا ہے، افغانستان میں بے چینی کی وجہ سے ملک کی فوریکس کی مارکیٹ میں طلب کا دباؤ پیدا ہو گیا ہے، اس سلسلے میں جب ماہر معیشت اشفاق تولا سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا ڈالر کی مہنگائی کی اصل وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا معاہدہ ہے جس کی وجہ سے پہلے بھی روپے کی قدر میں کمی آئی تھی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، اس معاہدہ کے تحت سٹیٹ بینک مارکیٹ میں میں مداخلت سے گریز کر رہا ہے کیونکہ معاہدہ کے تحت روپے کی فطری قدر کا تعین ہونا ہے، انہوں نے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا کہ افغانستان کی صورت حال کی وجہ سے ڈالر کی قدر بڑھی ہے، ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے آنے والا پیسہ ’’گرے مارکیٹ‘‘ کے زمرے میں آتا ہے، ڈالر کی اس قدر میں اضافہ کی وجہ سے آٹو سیکٹر، موبائل فون اور دیگر درآمدی اشیاء کی قیمت آسمان کی طرف جا رہی ہے۔