پولیس کلچر کی تبدیلی کے دعوے اور حقائق
تھانہ کلچر کو تبدیل کرنے کی دعویدار موجودہ حکومت کے تین سالوں کے دوان نہ تھانہ کلچر تبدیل ہوا اور نہ ہی محکمہ پولیس کے حالات بدلے ، ہاں البتہ پنجاب پولیس میں6آئی جی تبدیل ہوگئے اور اب موجودہ حکومت کے7ویں آئی جی کی حیثیت سے تعینات ہونیوالے راؤ سردار علی نے بھی پنجاب پولیس میں تھانہ کلچرکو بہتربنانے ،مقدمات کے اندراج میں تاخیر کو روکنے اور کرپشن سمیت دیگر محکمانہ برائیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ماتحت افسران کی میرٹ پر ٹرانسفر پوسٹنگ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے،،ان باتوں کوسنتے ہوئے اب تو کئی دہائیاں ہی بیت گئی ہیں کہ کیمونٹی پولیسنگ کے تحت پولیس کلچر کو تبدیل کرکے پولیس کو عوام کا خادم بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات عمل میں لائے جائینگے ، تھانوں کو انصاف کی آماجگاہ بنایا جائیگا ، تھانوں میں تعینات پولیس افسران اور اہلکاروں کی حالت زار کو بہتر بنانے کیلئے ریفامرزتشکیل دئیے جائینگے، کرپشن اور انصافی کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جائے گا ، میرٹ پر پوسٹنگ کے عمل کو یقینی بنایا جائیگا ، ،قارئین کرام: ہر حکومت نے ان روایتی دعوؤں کوسیاسی نعروں کی شکل دیتے ہوئے اپنے منشور کا حصہ بناکر عوام کولولی پاپ دیا مگر ’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘کے مصداق یہ معاملہ جوں کا توں ہے اور شاید کہ آنیوالے دنوں میں بھی ایسے ہی رہے گا ،موجودہ حکومت کے تین سال کے دوران تین ماہ اور 5دن کلیم امام ،ایک ماہ 3دن محمد طاہر، چھ ماہ اور2 دن امجد جاوید سلیمی ،سات ماہ اور12دن عارف نواز،نو ماہ اور 10 دن شعیب دستگیر جبکہ گیا رہ ماہ اور28 دن انعام غنی آئی جی پنجاب کے عہدو پر تعینات رہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ راؤ سردارعلی کتنی دیر تک حکومتی توقعات پر پورا اترتے ہوئے بطور آئی جی پنجاب اپنی پوسٹنگ کوبرقرار رکھ پاتے ہے۔
خیر ٹرانسفر پوسٹنگ تو نوکری کا حصہ ہوتی ہیں مگر موجود حکومت نے جس تیزی سے پنجاب پولیس کے سربراہ تبدیل کئے ہیں اسکی بھی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ، اب تو تبدیلی سرکار کی جانب سے آئے روز ہونیوالے تبادلوں کے بعد یہ خواہش بھی دم توڑ تی جارہی ہیں کہ کبھی تو ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ایسی پولیس اصلاحات نافذ ہوگی جن کی مدد سے غیر انسانی سلوک بدعنوانی اور ناانصافی سے بھرا پڑا ہے روایتی پولیس کلچر تبدیل ہو جائے گا،سچ تو یہ ہے کے پی کے پولیس میں اگر کوئی بہتری آئی تھی تو اسکی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہاں پر پولیس میں ٹرانسفر پوسٹنگ سمیت کسی بھی معاملے میں کسی بھی سیاسی مداخلت نہیں ہوتی ، پولیس کے امور میں کو دخل اندازی نہیں کرتا وہاں پر پولیس کا محکمہ مکمل طور پر پولیس کے پاس ہے ایسی ہی صورتحال بلوچستان پولیس کی بھی ہے وہاں پر بھی ٹرانسفر پوسٹنگ کے حوالے سے صوبائی حکومت کی جانب سے پولیس کسی بھی دباؤ کا شکار نظر نہیں آتی ،ہاں البتہ پنجاب اور سندھ میں پولیس کے اندر ہیڈ کانسٹیبل سے لیکر آئی جی تک کی ٹرانسفرز پوسٹنگ میں سیاسی عمل دخل کا عنصر موجود ہیں۔ قارئین کرام، محکمہ پولیس کے اندر ہونیوالے اچانک تبادلے جہاں حکومتی خزانے پر بوجھ بنتے ہے وہی ماتحت افسران کیلئے بھی بڑی خرابی کا سبب بنتے ہیں، محکمہ پولیس کے اندر ہونیوالا ایک انسپکٹر جنرل کا تبادلہ پورے میں محکمے میں تبادلوں کا طوفان برپا کردیتا ہیں،خاص طور پر صوبہ سند ھ اور پنجاب میں آئی جی کی ٹرانسفرکے بعد آر پی اوز، ڈی پی اوز، سی پی اوز، ایس ایس پیز ،ایس پیز اور ڈی ایس پیز اپنی پوسٹنگ کے تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے نئے تعینات ہونیوالے کمانڈرکی خوشنودی کے حصول کیلئے بااثر سیاسی شخصیات کی سفارشوں میں لگ جاتے ہیں ،اسی طرح آر پی او، ڈی پی او ، سی پی اوکی ٹرانسفر ہوجائے توریجن اور ضلع میں تعینات سرکل افسران کے ساتھ ساتھ تھانوں میں تعینات ایس ایچ اوزپوسٹنگ کیلئے نئی سفارشوں کی تلاش شروع کردیتے ہیں ، یہی نہیں اب تو ایس ایچ اوز کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ شہر کے مضافاتی تھانوں میں من پسند محرر کی تعیناتی کیلئے ایم این اے اور ایم پی اے پولیس افسران کے دفاتروں میں سفارشیں کرتے نظر آتے ہیں ،اب یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جوآفیسر زسفارش کے بل بوتے پر پوسٹنگ حاصل کرتے ہیں وہ بھلا خود کیسے اپنے ماتحت افسران کی میرٹ پر تعیناتی کریں گا ، آج تک کسی نے یہ سمجھنے اور جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ آخر یہ تھانہ کلچر ہے کیا جوکہ ٹھیک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ہر صاحب اقتدار پولیس کلچر کی تبدیلی کے حوالے سے اپنی انوکھی منطق پیش کرکے خود کو عقل کل ثابت کررہا ہیں مگربدقسمتی یہ ہے کہ جن پولیس آفیسرز نے اپنی زندگیاں اس محکمے میں گزار دی ان کو کوئی پوچھ نہیں رہاکہ یہ تھانہ کلچر کیسے تبدیل ہوسکتا ہے ،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پنجاب میں تھانہ کلچر کو صرف اور صرف پولیس ہی تبدیل کرسکتی ہیں جس کیلئے حکومت کو بس یہ کرنا ہوگا کہ کے پی کے کی طرح پنجاب میں بھی (پولیس کا محکمہ پولیس کے حوالے کرنا ہوگا ) جوکہ موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے عملی طور پر ممکن ہوتا نظر نہیں آتا ،بہرحال ’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ !‘