شیطان سے ملاقات
شیطان کے چیلوں سے تو آئے روز میرا کہیں نہ کہیں سامنا ہو جاتا ہے مگرمیرے دل میںایک عرصے سے یہ شدید خواہش ہے کہ میری کسی شیطان سے ’’ون ٹو ون‘‘ ملاقات ہو جس میں اُس ناہنجارسے میں یہ سوال پوچھ سکوں کہ وہ کیوں ہر وقت ہم جیسے سیدھے سادے انسانوں کی عاقبت خراب کرنے پر تُلا رہتا ہے۔ چند روز پہلے میں نے باتوں باتوں میں یونہی اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے دوست شاطر سے کیا تو اُس نے چُٹکی بجاتے ہوئے کہا’’ جان من!یہ بھی کوئی مسئلہ ہے حکم کرو شیطان سے کب اورکہاں ملنا پسند کرو گے؟‘‘۔اس پر میں نے کسی خود ساختہ دانشور کے انداز میں اپنی ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے اُسے کہا ’’یارشاطر! اس وقت میرا مذاق کا موڈ نہیں ہے ، شایدتمہیں اندازہ نہیں ہے کہ میں نے یہ بات کس پیرائے میں کی ہے اور میری اس خواہش کے پیچھے کیا نیک مقصد چھپا ہے؟‘‘۔ میری اس ناگواری کو محسوس کرنے کے باوجود شاطر نے اسے ہنس کر نظر انداز کرتے ہوئے کہا ’’شیطان سے ’’ون ٹو ون‘‘ تمہاری ملاقات کی خواہش کے پیچھے چھپے اپنے نیک مقصد کے بارے میں تم مجھے نہ بھی بتائو تو بھی میں تھوڑا بہت تو سمجھ ہی سکتا ہوں۔ویسے بھی تمہارا پرانا دوست ہونے کے علاوہ تمہارے کالموں کا مستقل اور شاید واحد قاری بھی ہوں،تیار رہنا میںکل کسی وقت شیطان سے تمہاری ملاقات کروادونگا‘‘۔اسکے بعد اس نے دروازہ کھولا اور میری طرف مڑ کر دیکھے بغیر کمرے سے باہر نکل گیا۔ اگلے روزغالباََ رات کے ساڑھے دس گیارہ بج رہے ہونگے جب میں ناشتے کیلئے بیکری سے انڈے ڈبل روٹی خرید کر گھر واپسی کیلئے اپنی گاڑی سٹارٹ کر رہاتھا کہ ہاتھ میں تسبیح لٹکائے اور سر پر نماز والی ٹوپی پہنے ایک نورانی شکل و صورت کے ستر پچھتر سالہ بابا جی نے میری مخالف سمت والے کار کے شیشے پر دستک دی۔ میں نے باباجی کی سائیڈ والا گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور پوچھا ’’ جی حاجی صاحب فرمائیے میں آپکی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘۔ باباجی نے ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر گاڑی کادروازہ کھولا اور نوجوانوں کی سی پھرتی سے اگلی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا ’’پتر!میں خدمت لینے نہیں خدمت کرنے آیا ہوں‘‘۔ رات کے اس پہر میں مجھے بابا جی کے اس پراسرار انداز پر حیرانی کے ساتھ کچھ پریشانی بھی ہوئی لیکن میں نے اسے ظاہر کیے بغیر اُن سے کہا ’’حاجی صاحب! میںکچھ سمجھا نہیں آپ کس خدمت کی بات کر رہے ہیں؟‘‘۔ باباجی کہنے لگے ’’پتر! یہاں سے نکلو میں تمہیں راستے میں بتاتا ہوں بس ابھی تم اتنا سمجھ لو کہ میں تمہارے من کی مراد ہوں‘‘۔مجھے باباجی کی اس پہیلی کی بالکل سمجھ نہیں آئی مگر اسکے باوجود پتا نہیں باباجی کے لہجے میں ایسی کیا بات تھی کہ میں نے گاڑی ریورس کرکے مین سٹرک پر ڈال دی اور پوچھا ’’حاجی صاحب کہاں چلنا ہے؟‘‘۔باباجی کہنے لگے ’’ پتر تم مجھے کہیں بھی لے چلو البتہ یہ جو تم مجھے بار بار حاجی صاحب کہہ رہے ہو یہ مت کہو اس سے مجھے خاصی تکلیف ہوتی ہے‘‘۔ مجھے لگا شاید بزرگ انکساری کی وجہ سے ایسا کہہ رہے ہیں لہٰذا میں نے بڑے ادب سے کہا ’’ بزرگو جیسے آپ کا حکم لیکن میری گزارش ہے کہ آپ میرے صبر کا مزید امتحان نہ لیں اور براہ مہربانی مجھے اپنا تعارف کروادیں ‘‘۔بابا جی نے شرارتی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا ’’میں نے بتایا ناںمیں تمہارے من کی مراد یعنی وہ شیطان ہوں جس سے ’’ون ٹو ون‘‘ملنے کی تمہاری شدید خواہش تھی ۔میں نے بابا جی کی تسبیح اور نماز والی ٹوپی سمیت اُنکے سراپے پر ایک گہری تنقیدی نظر ڈالی اور پھر اُنکے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’بابا جی! نامعلوم رات کے اس پہر میں آپ میرے ساتھ ایسا مذاق کیوں کر رہے ہیں ‘‘۔یہ سُن کر باباجی اچانک غصے میں آگئے اور کہنے لگے ’’برخوردار! جب میں تمہیں صاف لفظوں میں کہہ رہا ہوں کہ میں شیطان ہوں تو پھر وہ کیا امر ہے جو تمہیں میری بات پر ایمان لانے سے روک رہا ہے؟‘‘۔میں نے ایک بار پھر بے یقینی سے باباجی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا’’ یقینا آپ کو میرے ساتھ ایسا مذاق کرنے کیلئے شاطر نے اُکسایا ہوگاجس کے سامنے کل میں نے غلطی سے شیطان سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا‘‘۔اس پر باباجی کہنے لگے ’’میں کسی انسان کے حکم پر نہیں چلتا بلکہ تم جیسے انسانوں کو اپنے حکم پر چلاتا ہوں، بیشک شاطر میرا بہت اچھا چیلا ہے مگر میںاسکے کہنے پر نہیں اپنی مرضی سے تمہیں ملنے آیا ہوں‘‘۔میں نے ایک بار پھر باباجی کے چہرے پر نظر ڈالی اور کہا ’’ بابا جی آپ اپنے بارے میں جو بھی کہیں میرا دل نہیں مانتا کہ آپ جیسی نورانی شکل و صورت اور شریفانہ حلیے کا کوئی بندہ شیطان بھی ہو سکتا ہے۔میں نے آج تک شیطان کو دیکھا تو نہیں لیکن میرا اندازہ ہے کہ وہ اپنے سیاہ کرتوتوں اور چہرے پر برستی نحوست اور پھٹکار کی وجہ سے دور سے ہی پہچانا جاتا ہوگا‘‘۔اس پر باباجی نے مسکرا کر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’برخوردار! سب سے پہلے تو یہ سن لو کہ میں تم سے جھوٹ نہیں بول رہا تو میں تمہیں بتادوں کہ اس دنیا میں انسانوں کے جتنے بھی کاروبار اور کردار ہیں میرے اتنے ہی روپ ہیں۔میں انسانوں کے درمیان انسانوں کی ہی شکل اور حلیے میں رہتا ہوں۔بس اتنا سافرق ہے کہ کسی جگہ میں خود ہوتا ہوں اور کسی جگہ میرے چیلے ہوتے ہیں‘‘۔