ملا، مولوی اور مولانا
مُلا، مولوی اور مولانا، یہ تین لفظ مذہبی راہنماؤں اور مساجد میں نماز پڑھانے والوں کے لیے بولے جاتے ہیں۔ مثل ہے ’’ملا کی دوڑ مسجد تک‘‘ مطلب ہر شخص کی کوشش اس کے حوصلے اور مقدور تک ہوتی ہے۔ جہاں تک آدمی کی دسترس ہو، اس سے آگے نہیں جا سکتا۔ مُلاّ دو پیازہ، محاورہ بھی ہے۔ دربار اکبری کے ایک مشہور ظریف کا لقب تھا۔مُلاّ کے بارے میں علامہ اقبال کے اشعار ہیں:۔؎
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
مُلاّ کی شریعت میں فقط مستی گفتار
مُلاّ کی نظر نور فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے مے خانہ، صوفی کی مئے ناب
بلھے شاہ کا شعر ملاحظہ کریں:۔؎
مُلاں تے مثالچی دوھاں اکّو چت
لوکاں کردے چاننا، آپ انھیرے نِت
اشفاق احمد نے اپنے ایک انٹرویو میں ’’مُلاّ‘‘ کو اپنا آئیڈیل قرار دیا۔ اشفاق احمد کی وفات کے بعد بانو قدسیہ سے میں نے دریافت کیا کہ جس معاشرے کا آئیڈیل مُلاّ ہو، وہ معاشرے کو کس طرف لے جائے گا؟ بانو قدسیہ کا جواب تھا ’’سب سے پہلے ہمیں اشفاق صاحب کے مُلاّ اور آج کے مولوی میں پائے جانے والے فرق کو سمجھنا ہوگا۔ اشفاق احمد صاحب کا مولوی گاؤں کی مسجد اور شہر کی گلی محلوںکی چھوٹی چھوٹی مسجدوں کا مولوی ہے جو بچوں کو قرآن شریف پڑھاتا ہے اور بڑوں کو کلمہ پڑھنا، نماز پڑھنا اور روزے کے فضائل بیان کرتا ہے۔ عیدین کی نمازیں اور نماز جنازہ پڑھنا سکھاتا ہے۔ اس کے بدلے میں لوگوں کی طرف سے دی گئی نذر نیاز پر گزارہ کرتا ہے۔ اشفاق صاحب کے مولوی کو بیرون ممالک سے کسی قسم کا کوئی فنڈ یا گرانٹ نہیں ملتی۔ اگر ہم اشفاق صاحب کے مولوی اور بیرونی گرانٹ پر چلنے والے مولوی کے درمیان پائے جانے والے فرق کوپیش نظر رکھیں گے تو یقینی طور پر اشفاق صاحب کے مولوی کو اپنا آئیڈیل قرار دیں گے‘‘ ۔ اب ہم آتے ہیں لفظ ’’مولانا‘‘ کی طرف۔ سورہ آل عمران کی آیت 286 کا ترجمہ ہے ’’تو ہمارا مولا ہے (انت مولانا) تو کافروں پر ہمیں مدد دے‘‘ مطلب یہ کہ اللہ کے سوا کوئی کسی کا مولا نہیں ہو سکتا۔
سورہ العنکبوت کی آیت 41 کا ترجمہ ہے۔ ’’ان کی مثال جنھوں نے اللہ کے سوا اور مالک بنا لیے ہیں۔ مکڑی کی طرح ہے۔ اس کے جالے کا گھر اور بے شک سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا گھر۔ کیا اچھا ہوتا کہ وہ جانتے‘‘ ۔ ان آیات سے سمجھ لینا چاہیئے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو مولانا کہنا انسان کو کہاں پہنچا دیتا ہے۔ اس سلسلے میں علماء کرام ہی بہتر راہنمائی کر سکتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے اکابرین اپنے نام سے پہلے مولانا نہیں لکھتے، نہ کہلواتے ہیں۔ بانی امیر جماعت اسلامی کو سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھا اور بولا جاتا ہے۔ اسی طرح میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سراج الحق، سید منور حسن، پروفیسر غفور احمد، حافظ محمد ادریس، لیاقت بلوچ، امیر العظیم، حافظ سلمان بٹ، ذکراللہ مجاہد، فاروق چوہان و دیگر اپنے اسماء سے پہلے ’’مولانا‘‘ نہیں لکھتے، نہ لکھواتے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد اور ڈاکٹر طاہر القادری بھی’’مولانا‘‘ نہیں لکھاتے۔ صوفیا کرام اور بزرگان دین کے اسماء سے پہلے ’’مولانا‘‘ نہیں لکھا جاتا۔ اب افغانستان میں مُلاّ برادران حکمران ہیں۔ دیکھتے ہیں۔ ان کی حکمرانی سے کیا تبدیلیاں آتی ہیں؟ مثل ہے ’’مولا ہاتھ بڑائیاں، جس چاہے تس دے‘‘ یعنی تمام عزتیں، مرتبے اور بزرگیاں خدا کے قبضے میں ہیں۔ جسے وہ چاہتا ہے، دیتا ہے‘‘ ۔ مولانا غلام مرشد 1935ء سے 1965ء تک بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب رہے۔ آ پ کو 1989ء میں کارکن تحریک پاکستان گولڈ میڈیل دیا گیا۔ مولانا غلام مرشد، نامور شاعر، ادیب اور دانشور احمد ندیم قاسمی کے خالہ زاد بھائی تھے۔ احمد ندیم قاسمی کہا کرتے۔ ’’مولانا غلام مرشد صحیح معنوں میں آزاد خیال مولوی تھے۔ ملائیت والی بات ان میں نہیں تھی۔ وہ پیر پرستی اور توہم پرستی کے مخالف تھے۔ آخر میں دانشور اور رائٹر رانا احتشام ربانی کی دنیا کے غیر عربی مسلمانوں سے اپیل۔ تمام غیر عربی مسلمانوں سے اپیل ہے، جن کو عربی زبان نہیں آتی تو وہ قرآن حکیم کا بغور مطالعہ عربی اوراپنی مقامی زبان میں کریں۔ کائنات کے تمام راز اس میں بتائے گئے ہیں۔ دنیا میں جن ملکوں نے ترقی کی ہے، انھوں نے قرآن حکیم کے مطالعے ہی سے اپنے ملکوں کے نظام کو بہتر بنایا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی ہے۔ دنیامیں جو علم کا طالب ہوتا ہے وہ ہر اس کتاب سے علم حاصل کرتا ہے جس سے اس کو روشنی اور راہنمائی ملے۔ قرآن حکیم دنیا کی واحد روشنی کی کتاب ہے۔ قرآن حکیم کا مطالعہ کیجئے، اس پر غور کیجئے اور دنیا میں اپنا مقام پیدا کیجئے۔