ڈاکٹر انور سدید کی یادیں
یہ کافی عرصہ کی بات ہے میں ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘ کے دفتر میں چچا مرزا ادیب کے پاس ملاقات کیلئے گیا۔ سلام دعا کے بعد میں نے مرزا ادیب کو کہا چچا جی! میں نے چائے پینی ہے چائے پلوائیں۔ چچا نے ایک لڑکے کو آواز دی یار دو چائے تیار کرکے لے آئو۔ ہم چائے پی رہے تھے کہ اس دوران ایک صاحب بڑے خوبصورت، خوش لباس دفتر میں تشریف لائے۔ چچا مرزا ادیب نے کھڑے ہوکر بڑے پرتپاک انداز میں ان کا استقبال کیا۔ پھر مجھ سے کہنے لگے بیٹا خالد ان سے ملو یہ مشہور ادیب، افسانہ نگار، غزل گو اور کالم نگار ہیں۔ ’’ڈاکٹر انور سدید‘‘ میں نام سے تو پہلے ہی آشنا تھا، لیکن ملاقات پہلی مرتبہ ہو رہی تھی۔ مرزا ادیب نے میرا تعارف کرواتے ہوئے کہا انور یہ چودھری برکت علی مرحوم کے بیٹے چودھری محمد خالد ہیں۔ میں احتراماً کھڑے ہوکر ڈاکٹر انور سدید سے ملا تو بڑی محبت اور جوش کے ساتھ انہوں نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔ پھر اپنی جگہ بیٹھے تو گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ ڈاکٹر انور سدید کہنے لگے۔ میں نے چودھری برکت علی مرحوم بانی ماہنامہ ادب لطیف اور پنجاب بکڈپو کو پہلی مرتبہ مجلس احراء کے ایک جلسے میں دیکھا۔ یہ جلسہ دہلی دروازے کے باہر شاہ محمد غوث لائبریری کے سامنے والے لان میں ہو رہا تھا اور چودھری برکت علی مرحوم تقریر کر رہے تھے۔یہ تھی ڈاکٹر انور سدید سے میری پہلی ملاقات اور اس میں ہونے والی باتیں۔
ڈاکٹر انور سدید نے بعد میں ہونیوالی ملاقاتوں میں بتایا کہ جب تحریک پاکستان کا آغاز ہوا تو میں انٹرمیڈیٹ میں پڑھتا تھا۔ میں نے تحریک پاکستان میں حصہ بھی لیا۔ ڈاکٹر انور سدید نے بتایا اس نے ڈیرہ غازی خان میں میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا اور اسکے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں انٹرمیڈیٹ میں داخلہ لیا تو تحریک پاکستان شروع ہو چکی تھی اور اسلامیہ کالج کے طلباء تحریک پاکستان میں ہراول دستے کا کام کر رہے تھے۔ میں نے اس تحریک میں دل و جان سے حصہ لیا۔ ایسے ہی ایک دن بہن صدیقہ بیگم چیف ایڈیٹر ماہنامہ ادب لطیف میرے گھر آئیں اور مجھ سے کہنے لگیں کہ بھائی خالد میں نے انور سدید صاحب کو کھانے کی دعوت دینی ہے، تم میرے ساتھ چلو۔ ڈاکٹر انور سدید بڑے خلوص سے ملے اور محبت سے ہمیں اپنے کمرے میں لے گئے۔ مطالعہ کا کمرہ تھا، انکے اس کمرے میں جا کر دل باغ باغ ہو گیا۔ انکے دارالمطالعہ میں ادبی کتابیں بڑے سلیقے سے الماریوں میں لگی ہوئی تھیں جس میں نئے اور پرانے ہر قسم کے ادیبوں کی کتب شامل تھیں۔بہن صدیقہ بیگم نے ڈاکٹر انور سدید سے کہا ڈاکٹر صاحب ماہنامہ ادب لطیف کی طرف سے ادیبوں کی ایک بیٹھک کا اہتمام کر رہی ہوں۔ اس میں آپ نے ضرور آنا ہے۔ میں بھائی خالد کے ہمراہ گاڑی بھجوا دوں گی۔ میں انکے پاس عموماً اتوار والے دن انکے دولت خانہ پر ملاقات کیلئے جاتا تو بہت ہی محبت اور اپنائیت کا مظاہرہ کرتے اور کہتے بیٹا خالد تم آتے ہو تو مجھے انتہائی خوشی ہوتی ہے اور آپکے محترم والد چودھری برکت علی کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ایک مرتبہ ایک ملاقات میں فرمانے لگے میں اس بات سے بہت خوش ہوں کہ چودھری برکت علی کے بچوں نے ان کا نام زندہ رکھا ہے۔ محترمہ صدیقہ بیگم انے والد کا یادگار رسالہ ادب لطیف ہر ماہ شائع کر رہی ہیں اور ادیبوں سے بہت محبت اور تعاون کرتی ہیں اور ایسے ہی ایک مرتبہ ملاقات کیلئے میری دکان میں چودھری اکیڈمی پر تشریف لائے تو کہنے لگے بیٹا خالد میں جب بھی آپکی دکان پر آیا ہوں مجھے اس بات سے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ کی دکان پر بڑا علمی ماحول ہے۔ آپکی دکان پر ادیبوں، شاعروں اور صحافی حضرات کی آمدورفت دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے۔میں نے معجزات رسولؐ کا انسائیکلو پیڈیا کے نام سے ایک کتاب شائع کی اور ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں ہدیہ کے طورپر پیش کی اور ان سے عرض کیا کہ اس پر تبصرہ بھی اخبار میں شائع کر دیں۔ ڈاکٹر انور سدید نے اس عظیم کتاب پر تبصرہ تحریر فرمایا۔ میرا ارادہ ہوا کہ سعادت حسن منٹو کے افسانے شائع کروں۔ میں نے مناسب خیال کیا کہ ڈاکٹر انور سدید صاحب سے مشورہ کروں۔ انہوں نے فرمایا خالد چودھری جب تم نتے ہو تو دلی خوشی ہوتی ہے۔ جناب سعید آسی صاحب بھی آپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے عرض کیا ڈاکٹر صاحب میری دلی تمنا ہے کہ سعادت حسن منٹو کے افسانے طبع کروں۔ ڈاکٹر انور سدید نے کہا بیٹا خالد چودھری تم نے میرے دل کی آواز کہی ہے۔ اسکے بعد ڈاکٹر انور سدید کافی دیر تک مجھے دعائیں دیتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب نے منٹو کے سو افسانے مرتب کرکے مجھے دو ماہ میں تیار کرکے دیدیئے۔ اللہ کی مہربانی سے منٹو کے سو افسانے شائقین نے بہت پسند کئے۔ کتاب کے آغاز میں ڈاکٹر صاحب نے ایک مضمون ’’سعادت حسن منٹو پر ایک نظر‘‘ کے عنوان پر چھے صفحوں پر مشتمل بھی تحریر کیا جو ان کی محبت اور ادب سے لازوال تعلق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ محترم ڈاکٹر انور سدید اور والد چودھری برکت علی بانی پنجاب بکڈپو اور ماہنامہ ادب لطیف کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔ (آمین)