آخر ایسا کب ہوگا؟
ہم کہ درخشاں تہذیب کے امین آدابِ معاشرت، تہذیب و تمدن،ہمارا نظریہ اور اْس کی اساس یہ ہماری زندگی کے وہ محور ہیں جن کے گرد ہم محو رقصاں ہیں۔ ہمارے آبائو اجداد نے بہت سحر انگیز زندگیاں گزاریں اور معاشرے کی تہذیب و ثقافت کو زندہ جاوید رکھنے کیلئے ایسے نقش و نگار بنائے کہ اْنکے ہاتھوں میں چھید بھی ہوئے اور پوروں سے خون بھی ٹپکنے لگا مگر اْن کی جہدمسلسل جاری رہی۔ وہ دور اندیش اور فقیہہ الذہن تھے، اْن کیلئے اپنی ذات کی نفی زیادہ اہمیت رکھتی تھی، وہ آنے والی نسلوں کو ایسی عمارت میں پناہ دینا چاہتے تھے جس کی بنیادوں میں قربانی ایثار، ادب و آداب، تہذیب و تمدن،فلسفہ حیات کی اصل روح چْن دی گئی ہو اور یوں ایک درخشاں تہذیب کا ورثہ ہماری میراث بن گیا۔
ما بعد کئی نسلیں آئیں جنہوں نے اہلِ تقویٰ،اہل ایمان ہونے کا ثبوت دیا۔ گو اْس دور میں کئی طبقے دنیا کے طالب اور عیش پرست بھی رہے مگر آبائو اجداد کی نظریہ کی اساس میں گْند ھی وہ عمارت اتنی مضبوط تھی کہ اْس میں کوئی چھید نہ ہو سکا اور مسلمانوں کی تقدیس و تکریم کے گہرے جذبات و محبت سے معمور کردار نے مختلف گروہوں میں متشکل ہونے کے باوجود اْس اساس کو پروان چڑھایا اور معاشرے میں جذباتی، نفسیاتی، مذہبی،فلسفیانہ اور الٰہیاتی تعبیرات و تفسیر کے ذریعے اْمراء اور شرفاء کو مائل بہ تہذیب رکھا۔ جس کی بنا پر مسلم تہذیب و ثقافت،آداب و معاشرت اور نظریہ کی اساس کو شباب حاصل رہا۔ جب تک نظریاتی بنیادیں رکھی جاتی رہیں توضیحات و تراجم پیش کیے جاتے رہے۔ مکاتب کا ارتقاء ہوتا رہاتو تمام جْہات پھلنے پھولنے لگیں مگر جب تک تصوف،فقر،تقویٰ،آدابِ معاشرت اور تہذیب و تمدن کے مختلف میلانات ظہور پذیر ہوتے رہے مساجد آباد رہیںاورمکاتب بھی فکر کی آماجگاہ بن گئے۔۔ادب آداب اور تہذیب و تمدن جلا پانے لگا، لوگ گھروں سے نکلتے تو بزرگوں کو سلام کرتے ، بزرگوں کی طرف پشت کر کے چلنا معیوب سمجھتے، باقاعدہ آواز بلند سے اسلام و علیکم کہا جاتا،ناریاں بالیاں سروں سے آنچل ڈھلکنے نہ دیتیں،مردوں میں سادگیِ لباس کا رواج رہا، چمکیلے کپڑے ،کانوں میں بالی اور بازو میں کوئی زنجیر نہ ہوتی، لڑکیاں اور خواتین مردانہ لباس نہ پہنیں اور موسیقی کی لے پہ کہیں جسم تھرکتے نظر نہ آتے۔ کائنات کے نظام کے مطابق انسانی زندگی کے دن رات چڑھتے اور ڈھلتے گویا تہذیب و تمدن اور آداب معاشرت آکاس بیل کی طرح انسانوں کی روح و کردار و گفتار سے لپٹی ہوئی تھی اور اْسی میں آسودگی تھی۔ اْسی میں منتہائے عشق اور ترقی کے عوامل مضمراور تصوف کا سبز رنگ موجزن تھا ، درسگاہوں میں اشرف المخلوقات ہونے کا ماخذ زبان کی تفسیر بن چکا تھا۔مگر سِرکتے سِرکتے وقت کی دبیز تہہ سے ڈھلتے سورج کی دھند لکی شاموں کو روشن کرنے کا رواج پنپنے لگا۔اور طلوع ہوتی روشنی کو کم خواب کے بستر پہ محوِ خواب کرنے کا سماں بندھنے لگا۔تعلیم تو اب بھی تھی ،مکاتبِ فکر اب بھی زندہ تھے، آبائو اجداد کی تعمیر عمارت وہیں موجود تھی مگر راسخ العقیدہ اہلِ علم و فکر و دانش کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کیلئے مختلف طبقہِ فکر نے قلم کی جگہ شمشیر اور کمانیں نکال لیں۔ تہذیب و تمدن اور آدابِ معاشرت کی روح کو جسم سے علیحدہ کر کے ایسی تنگنا میں محدود کر دیا جانے لگاکہ معاشرے میں آہ و فغاں برپا ہو گیا۔
نوسرباز شہری کاموبائل لیکر رفوچکر آج کا علم روشنی کے مینار کے طور پہ دیکھا جاتا ہے مگر اس علم اس درس گاہ میں ہمارے نظریات ہماری تہذیب کہاںہے؟ سکولوں کی اسمبلی میں دو منٹ کی تلاوت اور انگریزی ترجمہ اور بس اْسکے بعد کیا۔۔۔؟ صرف امریکی نسل کی تیاری۔ جہاں علم کاروبار ہو جائے وہاں تہذیب و تمدن دفن ہو جاتے ہیں اور گورکن جب اپنے گھروں کے کفن بیچنے لگیں تو اْن کی اپنی لاشیں بے گورو کفن ہی دفنا دی جاتی ہیں۔ہماری درسگاہیں اورہمارے اساتذہ نوجوان نسل کی راہیں متعین کرتے ہیں اگر اساتذہ علم کی روشنی کو پھیلانے سے اور درسگاہیں تربیت گاہیں بننے سے انکار کردیں تو ہم سوچ سکتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل اور ملک کا مستقبل کتنا بھیانک ہوگا۔اپنی تہذیب وتمدن کو چھوڑ کر ہم اپنی حرمت گنوانے کے درپے کیوں ہیں؟ ہمارا معاشرہ جس طرح سے مجرم پیدا کررہاہے اور ہماری نوجوان نسل جس طرح حرمتِ حوا کو پامال کررہی ہے نہ جانے اس کا انجام کیا ہوگا؟پچھلے ایک عشرے میں ہمارے معاشرے میں جس طرح سے غیراخلاقی فعل کی بھرمار ہوئی ہے اس طرح سے مجرموں کو سزا وار نہیں ٹھہرایا گیا جس کی وجہ سے 10میں سے جو8مجرم بن جاتے ہیں وہ اپنے جیسے اور مجرم پیدا کردیتے ہیں ہمیں اپنے معاشرے کی حرمت بچانے کیلئے قانون کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ ایسے مجرم کوفوری سزا دیں اور ایسے والدین کو بھی سزا وار ٹھہرایاجائے جو کسی بھی بدفعلی پرپیسے کی وصولی کے بعد مفاہمت کرلیتے ہیں۔ آپ بتایئے کہ ایسی بچیوں اور بچوں کی کیاتربیت ہوسکے گی؟ کیا وہ معاشرے کے ایک ذہنی مریض بن کر نہیں رہ جائیںگے تو خدارا کچھ سوچئے تہذیب وتمدن،روایات اور دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیجئے۔