• news

پٹرولیم مصنوعات ، ڈالر کی قیمتوں کو کنٹرول نہ کیا تو سخت عوامی ردعمل آئیگا 

تجزیہ: محمد اکرم چوہدری
 ملک میں رواں مالی سال میں 2جولائی سے 15ستمبر تک روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت فروخت میں 11روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ 2جولائی کو اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قیمت فروخت 158.80روپے تھی جو 16ستمبر کو 169.80روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ اس مدت کے دوران خطے کے ممالک سمیت دیگر ملکوں کی کرنسیوں کی قدر میں کوئی کمی نہیں دیکھی گئی۔ بھارت کے زر مبادلہ کے ذخائر 600ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ بنگلہ دیش کے زر مبادلہ کے ذخائر 40 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں جبکہ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر اگرچہ 27.10ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں لیکن ان کا بیشتر حصہ لئے گئے قرضوں پر مشتمل ہے۔ بھارت کے زرمبادلہ کا حجم 600ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جبکہ بنگلہ دیش کے زر مبادلہ کے ذخائر 40ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس وقت کی گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر شمشاد اختر اور موجودہ حکومت میں گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے ڈالر کی قیمت کے تعین میں سٹیٹ بینک کا کردار ختم کیا۔ ڈاکٹر شمشاد  اختر کے دور میں بھی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کمی کا شکار رہی کیونکہ اس وقت بھی ملک میں ڈالر پر سٹہ بازی ہوئی۔ لوگوں نے اپنا سرمایہ ڈالر میں تبدیل کرنا شروع کیا۔ سرکاری سطح پر امر کو تسلیم کیا گیا ہے کہ ملک میں کالا دھن بے شمار ہے جسے قانونی طور پر جائز کرانے کے لیے ماضی اور موجودہ حکومتوں نے ایمنسٹی سکیمیں متعارف کرائیں لیکن ہماری معیشت دستاویزی نہیں ہوسکی۔ اس کا ثبوت ٹیکس نیٹ میں ٹیکس گزاروں کی تعداد خطے کے بیشتر ممالک کے  مقابلے میں بہت کم ہے۔ اسی لئے پاکستان میں ساری قوم بالواسطہ ٹیکسوں کے شکنجے میں جکڑی  ہوئی ہے۔ اس کے بعد پھر مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گورنر ہائوس میں اپنے خطاب میں ڈالر میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو للکارا کہ اپنے ڈالر نکال لو ڈالر سستا ہونے لگا ہے۔ اس کے بعد ڈالر کی قیمت 106 روپے سے کم ہو کر 96 روپے تک پہنچی لیکن بلیک اکانومی تب بھی اس ملک میں تھی۔ اگرچہ ڈالر کی قیمت تو کنٹرول رہی لیکن ملک کی برآمدات بری طرح متاثر ہوئیں اور بیرونی قرضوں کا حجم بھی بڑھ گیا۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی کمی ہوئی۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت آئی اور عمران خان  وزیز اعظم بنے۔ ان کو سب سے بڑا چیلنج ملک کی معیشت کو درست کرنا تھا۔ انہوں نے پہلے اسد عمر کو وزیر خزانہ مقرر کیا لیکن مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوئے تو انہوں نے اسد عمر کی جگہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ مقرر کیا۔ انہوں نے کرنٹ اکائونٹ خسارہ کنٹرول کیا لیکن مہنگائی کنٹرول نہ کر سکے جس پر شوکت ترین کو وزیر خزانہ مقرر کیا گیا۔ ان کے دور میں ملک میں مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس کی وجہ عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافہ، کرونا کی تباہ کاریاں سمیت دیگر عوامل تھے۔ اس مدت میں ڈاکٹر رضا باقر کو گورنر سٹیٹ بینک بنایا گیا۔ انہوں نے بھی ڈاکٹر شمشاد اختر کی طرح ڈالر پر سٹیٹ بینک کا کنٹرول ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اب ڈالر کی قدر کا تعین مارکیٹ فورسز کریں گی۔ ایک سال تو ڈالر کی قیمت میں کمی بیشی ہوئی لیکن رواں مالی سال کے آغاز پر ہی ڈالر کی قیمت میں اضافہ شروع ہوا اور 16 ستمبر کو ڈالر کی اوپن مارکیٹ میں قیمت فروخت 169.80روپے تک پہنچ گئی۔ کیونکہ لوگوں نے ایک مرتبہ پھر ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد ڈالر میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے۔ اس وقت ملک میں ڈالر کی سپلائی کم اور اس کی طلب بہت زیادہ ہے۔ فیصلوں میں اعتدال ہونا چاہئے ڈالر کو ہر وقت کنٹرول کرنا بھی درست نہیں اور اسے مکمل طور پو آزاد کرنا بھی مناسب نہیں۔ ہم ان دونوں تجربوں کے نتائج بھگت چکے ہیں۔ سٹیٹ بنک کو حکمت عملی بنانی چاہئے کہ جب ڈالر کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ ہو تو ڈالر کی قیمت میں مصنوعی تیزی کو کنٹرول کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی سپلائی کرے۔ اس کے علاوہ ملک کی معیشت کی ترقی کے موثر اقدام کئے جائیں۔ گورنر سٹیٹ بنک کو ادراک ہونا چاہئے کہ ہماری درآمدات برآمدات کے مقابلے میں زائد ہیں۔ اگر ڈالر کو یونہی بڑھنے دیا گیا تو اس کے ہماری معیشت پر کیا منفی اثرات مرتب ہوںگے۔ موجودہ حکومت نے برآمدات میں اضافہ کے لئے موثر اقدام نہیں کئے۔ اس کا ثبوت ہماری ترسیلات زر زیادہ ہیں اور برآمدات کا حجم کم ہے۔ گزشتہ 3 سالوں میں ترسیلات زر کا حجم 74 ارب ڈالر رہا لیکن ترسیلات زر سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کیونکہ ان کا بیشتر حصہ بینکنگ چینل کے ذریعے ملک سے باہر چلا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ترسیلات زر انکم کو  ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4)کے تحت ٹیکس سے  استثنا حاصل ہے۔ میرا حکومت کو مشورہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ کو کنٹرول کرنے کے فوری اقدام کرے۔ ابھی وقت ہے حالات کو قابو کیا جاسکتا ہے۔ اگر فوری طور پر ایسا نہ کیا گیا تو عوام اس کا بہت سخت ردعمل دیں گے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق اس وقت جی ڈی پی کے مقابلے میں  بچتوں کی عالمی شرح 24.97فیصد ہے جبکہ پاکستان میں مہنگائی کے باعث بچتوں کی شرح 17فیصد ہے۔ بنگلہ دیش میں یہ شرح 37فیصد، انڈیا میں 30فیصد، ایران میں 38فیصد، سری لنکا میں 25 فیصد اور چین میں 44فیصد ہے۔ صرف افغانستان میں بچتوں کی  شرح صفر ظاہر کی ہے۔ اگر ہماری حکومت اور سٹیٹ بنک نے مہنگائی اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ کو کنٹرول نہ کیا تو پاکستان کی صورتحال بھی کہیں افغانستان جیسی نہ ہو جائے۔

ای پیپر-دی نیشن