فلاحی ادارے کی خاتون سے ملاقات
میری ملاقات ایک فلاحی ادارہ کی سربراہ سے ہوئی۔ وہ خاتون ان چند لوگوں میں سے ہے جو محض باتیں نہیں کرتے بلکہ عملی طور پر دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی خدمات سے کون واقف نہیں ہے۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی ان کا سب سے بڑا کارنامہ اپنے ادارے کو احسن طریقے سے چلانا ہے۔میں نے ان سے پوچھا کہ تمام حکومتی رفاہی اداروں کی آپ سربراہ ہیں۔ میرے خیال سے وہ ادارے بہتر ہو گئے ہونگے۔ میری اس بات سے انہوں نے گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ان اداروں کا حال مجھ سے نہ ہی پوچھیں ایک ادارے کا دورہ کیا تو وہاں پر بچوں کے غسل خانوں کی حالت اتنی خراب تھی کہ یوں سمجھ لیں کہ کسی قسم کا بندوبست نہیں تھا۔ ایک اور ادارے میں گئی تو وہاں پر پانی کا انتظام نہیں تھا۔ بیچارے غریب لاچار بچے بغیر پانی کے زندگی بسر کر رہے تھے۔ یہ دیکھتے ہوئے میں نے ٹھان لی کہ جتنا ممکن ہو ‘ان اداروں کو بہتر حالت میں لانے کی کوشش کروں گی۔ اگرچہ وقت کم ہے مگر میری محنت سے کچھ نہ کچھ بہتری نکل آئے گی‘محنت کریں تو اللہ بھی مدد دیتا ہے۔
ان اداروں کے بارے میں سنا تو میرا دل پسیج گیا۔ ۔۔۔کہاں وہ بچے جو عیش و عشرت سے پلتے ہیں اور کہاں وہ معذور بچے جو کسمپرسی کی حالت میں ہر سہولت اور عیش سے محروم ہیں۔ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ یہ بھی اللہ کی مخلوق ہیںیہ سوچتے ہوئے میں نے پوچھا۔گورنمنٹ کے خزانے جیسا کہ سننے میں آتا ہے کہ خالی ہو چکے ہیں تو ہمارے ملک میں رہنے والو ں کے خزانے تو خالی نہیں ہیں۔ اگر ہمارے امرا ٔ دو دو ہاتھوں سے لٹانا بھی چاہیں تو لٹا سکتے ہیں۔ امیر ترین لوگ اس ملک میں بستے ہیں وہ زکوٰۃ کے فنڈ سے ہی ان اداروں کی حالت بہتر کر سکتے ہیں۔ وہاں ان کے علاوہ اوربھی چند خواتین بیٹھی ہوئی تھیں ان میں سے ایک نے جواب دیا۔
زکوٰۃ تو بینک میں کٹ جاتی ہے اور وہ مستحق لوگوں تک نہیں پہنچ پاتی وہ ادھر ادھر ہی خورد برد ہو جاتی ہے۔ رئیس لوگ بھی اگر ان اداروں کو ٹھیک کرناچاہیں تو انہیں یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ جو پیسہ ان اداروں کیلئے دیا جائے گا تو وہ بھی راستے میں ہی ہضم ہو جائے گا۔ اس ملک میںاس قدر کرپشن ہے کہ لوگ اپنا ضمیر کھو بیٹھے ہیں۔ اگر لوگوں کا ضمیر ہی ختم ہو جائے تو کرونا وائرس کیا کرے اس نے بھی مسلسل اپنی آنکھیں دکھانی ہیں۔
ہمارے ملک میں تو ہر علاقہ اب کریمنل(criminal) ہو گیا ہے کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی رفاہی اداروں کی تو ایسے حالات میں یہ ادارے ٹھیک ہونا ممکن نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں کرپشن کا کینسر بری طرح سرایت کر چکا ہے اور سدھار کا راستہ کوئی نظرنہیں آتا لیکن تمام تر خرابیوں کے باوجودیہ نیک خواتین ابھی بھی موجود ہیں جنہوں نے ایک اعلیٰ کام کیلئے اپنی زندگی وقف کر دی ہے۔ ان نامساعد حالات میں بھی خدمت خلق کی شمع جلا رکھی ہے۔ لیکن اگر اس ملک کے سو گھروں میں سے ایک عورت اس طرح کے کام کرنے لگے تو میرے خیال سے تمام ادارے درست ہو جائیں معذور اور بے سہارہ بچوں ،جوانوں اور بوڑھوں کیلئے گوشہ عافیت بن جائیں۔
اگر ہمارے صاحب اقتدار چاہیں تو ان اداروں کو بالکل باہر کے اداروں کی طرح بنا سکتے ہیں جہاں غریب لوگ امن کی زندگی بسر کرسکتے ہیں کیا کچھ نہیں اس ملک میں ہو سکتا ہے لیکن ہمارے ملک کے صاحب اقتدار نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں کاش وہ آنکھیں کھولیں اور ان غریب اور نادار بچوں کیلئے سوچیں۔