عبدالخالق: ایشین گیمز کا پاکستانی ہیرو
کسی قوم کا مضبوط ترین حوالہ اْس کی تاریخ ہے۔ وہ تاریخ جو اس کے اپنے ہیروز اور لیجنڈزبناتے ہیں اور پھر بعد میں آنے والی نسلیں نہ صرف اْس پر فخرکرتی ہیں بلکہ ان ہیروز کی کامیابیاں اْن کے لئے بھی مشعل راہ بن جایا کرتی ہیں آپ اس وقت بھی دْنیا بھر پہ نظر دوڑا لیجئے اب بھی وہی اقوام جدوجہد کرتی اور اپنے حق کے لئے لڑتی ہوئی اور اْن کا دفاع کرتی ہوئی نظر آئیں گی جن کے آبائواجداد نے اپنی زندگیاں اپنے مقاصد کے لئے وقف کردیں اور جو قومیں اپنی تاریخ کو بھول جاتی ہیں اْن کو فراموش کرنے لگتی ہیں ایک دن تاریخ اْن سے اس کا بدلاضرور لیتی ہے۔ آج عالمی مقابلے ہوں تو ہم بائیس کروڑ عوام میں سے گنتی کے چند ایک لوگ اْس میں اپنی مدد آپ کے تحت شرکت کرنے کی ہمت کرتے ہیں اگرچہ پچھلے کئی سالوں سے اولمپکس ہوں یا دیگر مقابلہ جات ہوں کامیابی ہم سے کوسوں دور رہتی ہے اگر کوئی باہمت وہاں پہنچنے کی سعی کرلیتا ہے اور ہار بھی جاتا ہے تو ہم اسی بات کو کافی سمجھ لیتے ہیں کہ چلو اس نے شرکت تو کی۔ مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آیا کہ کرکٹ پہ اربوں خرچ کرنے والی حکومت یا قوم باقی کھیلوں کو پروموٹ کیوں نہیں کرتی۔کرکٹ میں اتنی کثیر رقم خرچ کرنے کے بعد اعلیٰ ترین نتائج سے آپ سب بھی واقف ہیں لیکن جن پر ہمیں فخر کرنا چاہئے انہیں تو ہم فراموش کرچکے ہیں۔انہیں یاد کرنا تو دْور کی بات اْن کے ناموں تک سے واقف نہیں ہیں۔اغیار یاد دلاتے ہیں کہ تم میں ایسے ہیروز موجود ہیں اور تب ہم چونک کر تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ایک تحریر نظر سے گزری جس میں عبدالخالق جیسے ہیرو کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔میں صاحب تحریر کی شکر گزار ہوں کہ اْن کی وجہ سے اس ہیرو کے لئے میں کالم لکھ رہی ہوں اور اس کالم کے توسط سے ہزاروں لوگ ایک بار پھر اس ہیرو سے آشنا ہوجائیں گے۔ اس ہیرو کی یاد دراصل ہمیں ہمارے پڑوسی ملک انڈیا نے فلم ملکھا سنگھ کے ذریعے یاد دلائی۔میں عبدالخالق کی بات کر رہی ہوں۔خواہ منفی انداز میں ہی سہی بار بار عبدالخالق کا نام پکارا جاتا ہے۔ تاریخ کے اوراق اْلٹ کر دیکھئے آپ حیران رہ جائیں گے کہ منفی انداز میں پیش کئے جانے والے اس ہیرو کی خصوصیات اور کارنامے ملکھا سنگھ سے کہیں زیادہ ہیں۔اس گوہر نایاب کو ہم نے فراموش کردیا ہے۔صوبیدار عبدالخالق سے جو مسٹر پاکستان کہلایا۔ فلائنگ برڈ آف ایشیا کا خطاب پایا اور پھر Fastest Man of Asiaکہلایا۔یہ وہ دور تھا جب انگلش کمنٹریٹر اْسے مسٹر پاکستان کے نام سے پکارا کرتے تھے اور پھر اس نے سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میرے ملک کا نام ہے۔دْنیا بھر میں پاکستان کا نام بلند کرنے والے کا اب کوئی نام لیوا نہیں ہے۔
عبدالخالق نے1954،1956 اور1958 میں ہونے والی ایشین گیمز میں ریکارڈ بنائے۔ریکارڈ توڑے اور ملک کا نام روشن کیا۔ عجیب بات ہے کہ آج بھی عبدالخالق کی ملکھا سنگھ سے ہار کا تزکرہ ملتا ہے لیکن ان کی فتوحات کی طویل فہرست سے کوئی بھی واقف نہیں ہے۔عبدالخالق دراصل ملکھا سنگھ سے کہیں بڑے ایتھلیٹ تھے۔ناقابل یقین اور حیران کن کامیابیاں حاصل کرنے والے اس سپر سٹار نے انتہائی کم وقت میں زیادہ فاصلہ طے کرنے سمیت لاتعداد ریکارڈ بنائے۔ عالمی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں 36گولڈ میڈل، 15سلور میڈل اور12برونز میڈل اپنے و طن کے ماتھے پر سجائے۔جبکہ ملکھا سنگھ نے فقط5گولڈ میڈل حاصل کئے۔ پاک بھارت حالات کو نارمل کرنے کیلئے صدر ایوب ملکھا سنگھ کو جیتتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ ہمارے ہیرو نے یہاں بھی قربانی دے کر جیت حاصل کرلی اور جواب میں ہم نے اسے کیا دیا؟دوسری طرف ملکھا سنگھ کے اندر نفرت وغصہ نے آگ بھر رکھی تھی اس کا تمام خاندان تقسیم ہند کے وقت یہاں پر قتل ہوگیا تھا۔ بھارت میں ملکھا سنگھ پر کتابThe Race of My Lifeؒ لکھی گئی۔ اس کی یاد میں فلم بنا کر نئی نسل کو اس کے کارنامے سے متعارف کروایا گیا۔کتاب کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکے ہر صوبے سے شائع کیا گیا۔ ملک کے اہم کرکٹ، کبڈی، فٹبال اور ہاکی سٹیڈیم ملکھا سنگھ کے نام سے منسوب کردئیے گئے۔اسے بھارت کے چوتھے بڑے ایوارڈشری سے نوازا گیا۔ملکھا سنگھ کی خدمات کے اعتراف میں اسے پنجاب سپورٹس بورڈ کا ڈائریکٹر بنایا گیا اور مقابلے میںہم نے اپنے ہیرو کے ساتھ کیا کیا۔10مارچ 1988ء کو چپ چاپ دار فانی سے کوچ کرجانے والا ملک کا نام روشن کرگیا اور قوم کو شرمندگی تک نہیں کہ جواب میں ہم نے کیا کیا۔ارباب اختیار سے التماس ہے کہ اس ہیرو کے نام کو مٹی میں نہ ملنے دیا جائے۔ اس کے کام کو روشن رکھنے کیلئے جلی حروف میں ایسے ہیرو کاکارنامہ سلیبس میںشامل ہونا چاہئے۔ کسی سٹیڈیم کا نام اسے یاد رکھے جانے کیلئے تجویز کردینا چاہئے۔ کوئی ڈاکومنٹری الیکٹرانک میڈیا پر موجود ہونی چاہئے۔ نئی نسل کو اپنے ہیروز سے متعارف کروانا چاہئے۔ ورنہ یاد رکھئے تاریخ بہت ظالم چیز ہے۔