الیکشن کمشن نے ملک بھر میں بلد یاتی انتخانات کرانے کی تیا ریا ں کر لیں
لاہور (فاخر ملک) الیکشن کمشن نے چاروں صوبوں میں بلدیاتی الیکشن کرانے کے لئے تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور توقع ہے کہ آئندہ چھ سے آٹھ ہفتوں کے دوران الیکشن شیڈول جاری ہو جائے گا جس کے بعد حلقہ بندیوں کا عمل مکمل کیا جائے گا۔ الیکشن کمشن کے ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ چاروں صوبوں میں جنوری 2022 یا زیادہ سے زیادہ فروری 2022 تک بلدیاتی الیکشن کرانے کی منصوبہ بندی مکمل ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان اور خیبر پی کے کی بلدیاتی حکومتوں کی مدت بالترتیب 27 جنوری 2019 اور 28 اگست 2019 کو اختتام پذیر ہوگئی تھی جبکہ پنجاب میں بلدیاتی نظامِ حکومت 4 مئی 2019 کو تحلیل ہوا تھا اسی طرح سندھ میں بلدیاتی حکومت کی مدت 30 اگست کو اختتام پذیر ہوئی تھی۔ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 219 کے مطابق الیکشن کمشن اس امر کا پابند ہے کہ کسی صوبے، وفاقی دارالحکومت یا قبائلی اضلاع میں بلدیاتی حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد 120 روز کے اندر بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔ پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کی صورتحال یہ ہے کہ رواں اپریل میں پنجاب حکومت نے بلدیاتی اداروں کے ایوان نمائندگان کی تعداد کا ایک مرتبہ بھر تعین کرکے ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا تھا۔ لوکل گورنمنٹ تھرڈ ترمیمی آرڈیننس 2021 کے مطابق میٹروپولیٹن کارپوریشن کا سربراہ مئیر ہوگا جبکہ ایوان بشمول مئیر 71 کونسلرز پر مشمتل ہوگا۔ میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ہاؤس میں 50 کونسلرز، 2 مینارٹیز، خواتین کونسلرز 10اور لیبر کونسلرز 8 ہزار ہونگے۔ ایک کروڑ سے زائد آبادی سے زائد والی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ایوان کے کونسلرز کی تعداد 71 مقرر کردی گئی۔ 50 لاکھ سے ایک کروڑ تک کی آبادی پر مشتمل بلدیاتی ادارے کے ہاؤس کونسلرز کی تعداد 64 مقرر جبکہ 11 لاکھ سے 50 لاکھ والے بلدیاتی ادارے کا ہاؤس 57 کونسلرز پر مشتمل ہوگا۔ آٹھ لاکھ سے 11 لاکھ آبادی والے بلدیاتی ادارے کا ہاؤس 50 کونسلرز، پانچ لاکھ سے آٹھ لاکھ آبادی والے بلدیاتی ادارے کا 43 ارکان اور2 لاکھ 50 ہزار سے پانچ لاکھ آبادی والے بلدیاتی ادارے کا ہاؤس 36 کونسلرز پر مشتمل ہوگا لیکن اس آرڈیننس کے آنے کے بعد مسلم لیگ (ق) کے اختلاف کے نتیجہ میں صوبہ پنجاب میںبلدیاتی الیکشن کے ڈھانچہ کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا جبکہ دوسری طرف الیکشن کمشن نے پنجاب کے نئے بلدیاتی قانون پر اعترضات لگاتے ہوئے اسے الیکشن ایکٹ سے متصادم قرار اور صوبہ میں موجودہ قانون پر انتخاب کرانے سے بھی معذرت کر لی تھی۔ الیکشن کمشن کی جانب سے کہا گیا تھا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق قانون بننے تک بلدیاتی الیکشن نہیں ہو سکتا، پنجاب کے نئے بلدیاتی قانون کی کئی شقیں الیکشن ایکٹ سے متصادم ہیں اور پنجاب کے بلدیاتی قانون کی حلقہ بندیوں، ووٹرز لسٹوں، الیکشن کے طریقہ کار سے متعلق شقوں میں ابہام ہے، جبکہ صوبہ کے نئے بلدیاتی قانون میں کنڈکٹ آف الیکشن کا طریقہ کار موجود نہیں۔ علاوہ ازیں الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ پنجاب کے بلدیاتی قانون میں مسلم غیر مسلم کی الگ الگ ووٹرز لسٹیں بنانے کا کہا گیا ہے جبکہ الیکشن ایکٹ کے مطابق ایک ہی ووٹرز لسٹ لازم ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ پنجاب بلدیاتی قانون میں نیبر ہڈ کونسل اور پنچائیت کو بلدیاتی ادارہ نہیں کہا گیا۔ نیبر ہڈ کونسل، پنچائیت کیلئے الگ ایکٹ بنایا گیا ہے۔ ذمہ دار ذرائع کے مطابق بلدیاتی نظام کے بارے میں مسلم لیگ (ق) کی تجاویزکو قبول کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت مسلم لیگ (ق) نئے بلدیاتی نظام میں ضلع ناظم کے سیٹ اپ کی بحالی چاہتی ہے جبکہ تحریک انصاف نئے بلدیاتی نظام میں ضلع ناظم کی بجائے تحصیل میئر کا نظام چاہتی تھی۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پنجاب میں موجودہ انتخابی ڈھانچہ میں حکومت کی اتحادی جماعتوں نے پنجاب اسمبلی سے منظوری کرا لی تو الیکشن کمیشن ان تبدیلیوں کی روشنی میں الیکشن کرا دے گا۔ تاہم اگر اس میں کوئی تبدیلی نہ آئی تو موجودہ انتظام کے تحت الیکشن کرائے جانے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس ضمن میں بتایا گیا ہے کہ بلدیاتی ایکٹ پرحکمران اتحادی جماعتوں کے مابین اختلاف اور الیکشن کمیشن کے اعتراضات کو دور کرکے محکمہ بلدیات نے پنجاب بلدیاتی ایکٹ 2019 میں ترامیم کا کام مکمل کر لیا ہے۔ توقع ہے کہ پنجاب اسمبلی میں آرڈیننس کو بلدیاتی ایکٹ کی حیثیت سے پیش کرنے پر منظوری مل جائے گی کیونکہ حکومت اتحادی جماعتوںکو ایوان میں اکثریت حاصل ہے اس طرح پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کرانے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔