ریڈ لسٹ سے نکلنا خوش آئند، دنیا میرٹ پر فیصلے کرے!!!!
برطانیہ نے پاکستان، ترکی اور مالدیپ سمیت آٹھ ممالک کو سفری پابندیوں کی ریڈ لسٹ سے نکال دیا ہے۔ ریڈ لسٹ سے باہر آنے کے فیصلے کا اطلاق بائیس ستمبر کی صبح چار بجے سے ہوگا۔ریڈ لسٹ سے نکلنے کے بعد مکمل ویکسین شدہ افراد کو پاکستان سے برطانیہ آنے پر قرنطینہ نہیں کرنا ہوگا۔ریڈ لسٹ سے نکلنے والے ممالک میں پاکستان، ترکی، مصر، مالدیپ، سری لنکا، عمان، بنگلہ دیش اور کینیا بھی شامل ہیں۔ برطانیہ سفر کرنے والے ان ممالک کے شہری بائیس ستمبر سے ہوٹل میں قرنطینہ کئے بغیر گھروں میں جا سکیں گے۔ پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر کرسٹن ٹرنر ٹوئٹ کیا ہے کہ برطانیہ نے پاکستان کو ریڈ لسٹ سے نکال دیا ہے۔
برطانیہ کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے۔ پاکستان میں کرونا کے حالات کبھی اتنے خراب نہیں رہے کہ اسے سفری پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے۔ پاکستان کے مقابلے میں دنیا کے کئی ممالک جہاں کرونا بہت تیزی سے پھیلا اور جہاں حالات بہت زیادہ خراب تھے، متاثرہ لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، اموات کی شرح بھی پاکستان کی نسبت بہت زیادہ تھی لیکن اس کے باوجود برطانیہ نے ان ممالک پر سفری پابندیاں عائد نہیں کی تھیں۔ پاکستان نے برطانیہ سے اس ریڈ لسٹ پر احتجاج کیا تھا۔ اعدادوشمار بھی برطانوی حکومت کے سامنے رکھے، گذشتہ دنوں برطانوی وزیر خارجہ پاکستان کے دورے پر آئے تو اس دوران معاملات مزید بہتر ہوئے۔ سات ستمبر کو نوائے وقت کے صفحہ اوّل پر شائع شائع ہونے والا میرا تجزیہ اسی حوالے سے تھا۔ میں نے قارئین تک یہ خبر پہنچائی تھی کہ پاکستان ریڈ لسٹ سے نکلنے کے قریب ہے۔ تجزیہ کچھ یوں تھا۔
"برطانوی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان میں ریڈ لسٹ کے حوالے سے مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب نے پاکستان کا موقف نہایت غور سے سنا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق برطانوی وزیر خارجہ کو تکنیکی بنیادوں پر بریفنگ دی گئی ہے۔ پاکستان نے برطانیہ کے سامنے اپنا موقف نہایت واضح اور منطقی انداز میں پیش کرتے ہوئے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے پاکستان کو مسلسل ریڈ لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ مناسب نہیں ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان ریڈ لسٹ سے نکلنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ سے ہونے والی گفتگو اور انہیں پیش کیے جانے والے اعداد و شمار کے بعد پاکستان پر عائد سفری پابندیاں جلد ختم ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کی افغان پالیسی کی وجہ سے بھی دنیا کے اہم ممالک پاکستان کو سہولت دینے کی حکمت عملی اختیار کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ کے دورے کی ٹائمنگ اس حوالے سے نہایت اہم ہے۔ افغانستان میں طالبان کی واپسی اور برطانیہ کی وہاں دلچسپیوں اور پاکستان کے کردار کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈومینک راب کے اس دورے سے پاکستان کو ایک سے زائد اچھی خبریں مل سکتی ہیں"۔
سفارتی اعتبار سے پاکستان اس وقت مشکل دور سے گذر رہا ہے جہاں اسے دنیا کے مختلف طاقتور ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات قائم رکھنے کی ضرورت ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے اپنے مفادات کا تحفظ بھی نہایت اہم ہے۔ ماضی کی نسبت اس مرتبہ پاکستان کا موقف اور کام کرنے کا انداز ذرا مختلف ہے۔ پاکستان عالمی طاقتوں کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے اور بہتر تعلقات کا خواہاں ہے لیکن پاکستان کسی نئی جنگ کا حصہ بننے یا خطے میں کسی نئی جنگ کی حمایت نہیں کرنا چاہتا۔ پاکستان نے بالخصوص گذشتہ بیس برس کے دوران جن مشکلات کا سامنا کیا ہے اس کے بعد یہ مشکل ہے کہ ہر وقت حالت جنگ میں رہتے ہوئے اپنے شہریوں کو خوف میں مبتلا رکھا جائے۔ اسی حکمت عملی کے تحت پاکستان نے امریکہ کو بھی انکار کیا اور خطے میں بھی معاشی ترقی اور پائیدار امن کے پیغام کو بڑھایا یہی وجہ ہے کہ کئی ایسے ممالک جن کے درمیان ماضی میں حالات کشیدہ رہے وہ معاشی ترقی کے لیے ایک میز پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ دنیا کو ایک دکھ، غم اور تکلیف یہ بھی ہے کہ پاکستان ان کے مفادات کی حفاظت کے بجائے اپنے بہتر مستقبل کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔ شاید برطانیہ نے بھی اسی وجہ سے پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کیے رکھا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ پاکستان نے افغانستان میں دنیا کی کس انداز میں مدد کی ہے۔ آخری دن فوجیوں کے انخلاء میں پاکستان کا کردار نہایت ذمہ دارانہ رہا۔ بہرحال خوش آئند ہے کہ برطانیہ کو احساس ہوا ہے اور پاکستان کو ریڈ لسٹ سے نکال دیا ہے۔ دیگر معاملات میں بھی دنیا کو حقیقت پسندانہ رویہ اپنانا ہو گا۔
پاکستان نے گذشتہ چند برسوں میں بہت مشکل وقت گذارا ہے۔ ہزاروں قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، کھربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کیا ہے۔ حال ہی میں افغانستان میں ہونے والی پیش رفت میں بھی پاکستان نے غیر مشروط طور پر سب کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ اس کے باوجود دنیا کا رویہ پاکستان کے ساتھ نامناسب ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن نا صرف پاکستان اور تاجکستان بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہے۔ تین دہشتگرد گروپ اب بھی افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ وہ کون سے تین گروپ ہیں، ان تین گروپوں کی سرپرستی کون کر رہا ہے یہ بھی سب جانتے ہیں۔ پاکستان اپنا موقف دنیا کے سامنے پیش کرتا رہے گا۔ یہ امن کے نام نہاد علمبرداروں کے لیے بھی سوچنے کا وقت ہے۔