بیرنی مسائل ، متحدہ دشمن کیخلاف اندرونی سیاسی اتحاد کی ضرورت
تجزیہ: محمد اکرم چودھری
حکومت آئینی اداروں اور اپوزیشن کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائے، ہر وقت بیان بازی اور الزام تراشی سے انتشار اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان کو بیرونی طور پر بہت بڑے اور سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے۔ بیرونی مسائل اور متحدہ دشمن کو دیکھتے ہوئے ہمیں ہر سطح پر اتحاد اور احتیاط کی ضرورت ہے۔ بالخصوص اندرونی طور پر سیاسی اتحاد کی ضرورت ہے۔ جس طرح دشمنان پاکستان سازشوں میں مصروف ہیں انہیں دیکھتے ہوئے اندرونی طور پر اتحاد کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ مسائل کو دیکھ کر اور دشمنوں کی سازشوں کو سمجھتے ہوئے ہمیں اپنے سیاسی اختلافات کو بھلا کر قوم کو اتحاد کا پیغام دینے کی ضرورت ہے۔ وزراء کی بیان بازی سے معاملات خراب ہوتے ہیں۔ گذشتہ تین برس میں بیانات سے حل ہونے والا کوئی ایک معاملہ ریکارڈ پر رکھیں تاکہ ہمیں اندازہ ہو سکے کہ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے بیان بازی ضروری ہے۔ افغانستان کو بنیاد بنا کر پاکستان کا سب سے بڑا دشمن بھارت اور اس کے دیرینہ سرپرست امریکہ بہادر نے سازشوں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ہم ان حالات میں اپنے اداروں کے ساتھ میچ کھیلتے رہیں اور اپنی اپوزیشن کو دشمن سمجھتے رہیں گے تو آئینی کاموں میں رکاوٹ پیدا ہو گی۔ زبردستی کرنے سے نفرت بڑھے گی۔ سیاسی جماعتوں کی اپنی ایک حیثیت اور اہمیت ہے لازم نہیں کہ سب باتیں میڈیا کے ذریعے کی جائیں۔ اہم قانون سازی اور آئینی ترامیم کے لیے اپوزیشن کے ساتھ بامقصد و بامعنی مذاکرات کا ہونا ضروری ہے۔ مذاکرات کے لیے ماحول پیدا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ کے حوالے سے چیف الیکشن کمشنر کے کردار کو متنازع بنانے سے جمہوریت کا کوئی فائدہ نہیں ہونا بلکہ اس تنازعہ سے یہ عمل مزید مشکوک ہو جائے گا۔ پارلیمنٹ موجود ہے، اس کی کمیٹیاں موجود ہیں، سیاست دانوں کی دوستیاں قائم ہیں پھر قانون سازی کے لیے بہتر ماحول میں بات چیت کرنے کے راستے میں کیا رکاوٹ ہے۔ آئینی اداروں کے ساتھ کشیدگی کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکلتے۔ ماضی میں یہ تجربہ ہو چکا۔ حکومت کے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے۔ الیکشن کو شفاف بنانا ہے تو پہلے سیاست دان خود شفاف ہوں، اتنے شفاف کہ ساتھی سیاست دانوں سے بات کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔ جتنے بھی مسائل ہیں بات چیت کے سوا حل نہیں ہو سکتے۔