نئی افغان حکومت عالمی تو قعات پوری کرے ، ہمیں حوصلہ افزائی کرنا ہو گی: بلاول
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ اس بات پر اکثر مبالغہ آرائی کی جاتی ہے کہ پاکستان کا افغانستان پر بہت اثر ہے لیکن پاکستان کو چاہیے کہ افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کی حفاظت بھی یقینی بنانی چا ہئے۔ وہ وزیراعظم عمران خان کی اس بات کو خوش آئند سمجھتے ہیں جو انہوں نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی تھی کہ پاکستان طالبان حکومت کو صرف اس وقت تسلیم کرے گا جب بین الاقوامی سطح پر کوئی اتفاق رائے پیدا ہو جائے۔ بلاول بھٹونے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ اسی قسم کا اتفاق رائے پاکستان میں بھی پیدا کریں گے۔ بدقسمتی سے پاکستانی پارلیمان افغانستان کے حالات تبدیل ہونے کے بعد اب تک اس مسئلے پر بحث کے لئے نہیں بلائی گئی اور نہ ہی پاکستان میں دوسرے شراکت داروں سے اب تک کوئی مشورہ کیا گیا ہے۔ بی بی سی ورلڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان سے صحافیوں کی جانب سے شکائتیں آرہی ہیں اور خواتین اپنے حقوق کے لئے احتجاج کر رہی ہیں۔ ہمیں اس بات پر فکر ہے کہ بچیوں کو سکول نہیں جانے دیا جا رہا۔ اگر طالبان خودکو بین الاقوامی برادری سے تسلیم کرانا چاہتے ہیں تو افغانستان کی نئی حکومت کو بین الاقوامی توقعات پر پورا اترنا ہوگا اور ایسا کرنے کے لئے ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ افغانستان میں جیسے ہی صورتحال تبدیل ہوئی تو پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت سے کہا کہ وہ پارلیمان کا سیشن بلائے۔ ہم ملک میں دیگر امور کی طرح اس مسئلے پر بھی کوئی اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکے۔ ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ پارلیمنٹ کی مرضی اور منشاء کے مطابق خارجہ پالیسی بنائی جائے نہ کہ کسی فرد واحد کی۔ ایک سوال کے جواب میں چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ درست ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے لئے فضا کم ہوتی جا رہی ہے۔ جمہوری لوگوں کو چاہیے اپنے سیاسی نظام میں ایک فعال کردار ادا کریں اور اس کے لئے پارلیمنٹ اور میڈیا کو استعمال کیا جائے۔ افغانستان میں مختلف ایجنسیوں کے کردار پر تاریخ بات کرے گی۔ چیئرمین بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ افغانستان کی صورتحال کے پاکستان پر اثرات کے شدید خطرات موجود ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ تحریک طالبان افغانستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان قریبی تعلقات بھی ہیں۔ ہم نے پرتشدد انتہاپسندی کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھایا ہے اور میں نے اپنی والدہ سابق وزیراعظم شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو انہی لوگوں کی وجہ سے کھو دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں افغانستان میں جنگ سے یہ سبق ملا ہے کہ انتہاپسندی کے خلاف جنگ صرف اسلحے اور بم سے نہیں لڑی جا سکتی۔