پاکستان بھارت میں جنگ جاری ، انداز بدل گئے
تجزیہ:محمد اکرم چودھری
پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ جاری ہے یہ جنگ انیس سو اڑتالیس، انیس سو پینسٹھ، انیس سو اکہتر اور کارگل سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ لڑی جا رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس مرتبہ جنگی طیارے، ٹنیک، بم اور گولیاں نہیں چل رہی اس مرتبہ جنگ کے انداز بدلے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم اندرونی طور پر ازلی دشمن کے خلاف جاری جنگ کو سمجھنے اور اس پر مشترکہ ردعمل دینے سے محروم نظر آتے ہیں۔ بھارت نے ابھی نندن کے ذریعے فضائی حملہ کرنے کی کوشش بھی کی۔ جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے اب وہ جھوٹی خبروں، معاشی حیثیت کو بنیاد بنا کر پاکستان کو دیوار سے لگانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس کام کے لیے ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم جلد یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ گذشتہ روز وفاقی وزراء نے نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کا دورہ منسوخ ہونے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر بھارتی سازشوں کو بے نقاب کیا ہے۔ اب یہ معاملہ اگلے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت نے ہر طرح سے ان ٹیموں کو روکنے کے لیے کردار ادا کیا ہے۔ جو ملک اور کرکٹ بورڈ کشمیر پریمیئر لیگ کے دوران غیر ملکی کھلاڑیوں اور آفیشلز کو روکنے کے لیے دھمکیاں دے سکتا ہے اس سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔ ایک طرف حکومت بھارتی سازشوں کو بے نقاب کر رہی ہے تو دوسری طرف وزارت خارجہ پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ اگر بھارت اس حد تک کرکٹ کھیلنے والے ممالک پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے یا انہیں دھمکانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لے رہا ہے تو ہماری وزارت خارجہ کو اس کا سدباب کرنے کے لئے بروقت اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ ہم کیوں دشمن کو حملے یا آگے نکلنے کا موقع دیتے ہیں۔ ہمیں اپنے کام کرنے کے انداز کو بھی بدلنا ہو گا۔ جہاں تک دیگر سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے تو انہیں دیکھ کر بھی افسوس ہوتا ہے۔ جب کبھی خطے کی سیاسی صورتحال میں تلخی آتی ہے ملک کے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف لندن سے افواجِ پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں۔ ان کا درد میں سمجھ سکتا ہوں اب لوگوں کو بھی اندازہ ہونا چاہیے کہ انہیں ووٹرز سے مسترد کیوں کیا تھا۔ وہ ہر مشکل اور کڑے وقت میں دشمنوں کے بیانیے کو تقویت پہنچاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہمارے سیاستدان اس ہائبرڈ جنگ میں پاکستان پر ہونے والے حملوں پر اظہارِ خیال کرنے اور اس کی مذمّت کے بجائے ذاتی اختلافات میں الجھے نظر آتے ہیں۔ انہیں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے سے ہی فرصت نہیں ہے۔