ہمارے مسائل
تیسری دنیا کے ممالک کے مسائل نہ صرف زیادہ ہیں بلکہ خطرناک حد تک بڑھتے چلے جا رہے ہیں باوجود اس کے کہ ان مسائل کیلئے نہ صرف رقم مختص کی گئی ہے بلکہ عملی طور پہ بھی بہت کچھ کیا جاتا ہے مگر پھر بھی کچھ مثبت نتائج دیکھنے میں نہیں آ رہے۔ مثبت نتائج نہ نکلنے میں سب سے بڑا عمل دخل کمزور حکمت عملی اور ہمارا خود اپنے آپ سے مخلص نہ ہونا ہے۔ تیسری دنیا کے مسائل کیا ہیں؟ سب سے بڑا مسئلہ تو آبادی کا ہے۔ آبادی کے بعد اگر ملک کے مسائل پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو تعلیمی پسماندگی، بیروز گاری، بیماری، مہنگائی، وسائل کی کمی، ذرائع آمد و رفت، زرِمبادلہ، زراعت، پانی، بجلی، گیس کا بحران، کرپشن اور بھکاریوں میں اضافہ، یہ تمام ایسے مسائل ہیں کہ آج 74 سال گزرنے اور ایک ایٹمی طاقت کے طور پر اپنے آپ کو عالمی سطح پر منوانے کے باوجود ہم نہ کشکول توڑ سکے ہیں نہ کسی بحران اور مسئلے کو مکمل طور پر حل کر سکے۔ ہاں کچھ مسائل ایسے ضرور ہیں کہ جہاں 10 فیصد سے لیکر 40 فیصد تک کچھ بہتری نظر آتی ہے جیسے کہ تعلیمی لحاظ سے ہمارے ہاں بہت تیز رفتاری سے کام ہو رہا ہے۔ شہروں میں تعمیرات پر خاطر خواہ کام نظر آ رہا ہے اور آئندہ بھی ایسی پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں کہ ذرائع آمد و رفت آسان ہو جائے۔ لیکن اس کے علاوہ ایک ایسی حکمت عملی بھی ہے کہ اگر ہم اْس کو اختیار کر لیں اور مربوط طریقے سے اس کو پھیلائیں تو ہمارے بے شمار مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے وہ ایک اہم نقطہ آبادی کا بڑھتا ہْوا سیلاب ہے۔ باقی مسائل تو اپنی جگہ لیکن آبادی کی شرح میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو ہم ان مسائل مین غرق ہو کر اپنا وجود بھی کھو بیٹھیں گے۔
آبادی کے مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنے کیلئے اگر چین کی حکمت عملی دیکھیں جس میں خاص طور پر نوجوان نسل کو اس بات کیلئے تیار کرنا ہے کہ وہ آبادی کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں۔ اسی طرح جس طرح کہ چین کے عوام نے سوچا ہے اور عمل کیا یہ ہمارے لیے بھی قابلِ تقلید ہونا چاہیے۔ چین ترقی پذیر ممالک میں ایسا ملک ہے جس نے بڑھتی ہوئی آبادی پر موثر طریقے سے نہ صرف قابو پا لیا ہے بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی ذہنی طور پر 30 سال کے بعد شادی کرنے اور دو بچوں پر ہی اکتفا کرنے کیلئے تیار کر رہا ہے۔ یہ ترقی پذیر ملک کیلئے بہت بڑی کامیابی ہے کہ اس کے عوام آبادی کے بڑھنے سے بڑھنے والے مسئلوں کو سمجھ کر تمام مسئلوں کی جڑ ہی ختم کرنے کو تیا ر ہو گئے ہیں۔ ہمارے آج کے بچے ہی کل کے ماں باپ ہیں اگر ہم آج سے ہی ان کو سنگین صورت حال سے نمٹنے کیلئے تیار کریں تو شاید آبادی جیسے مسئلے پر اگلے دس سالوں تک قابو پایا جا سکے۔ سائنسی ایجادات نے گو کہ انسان کو بہت سے کامیاب نتائج سے نوازا مگر آبادی کا مسئلہ انہی سائنسی ایجادات کے سبب پیدا ہْوا ہے کیونکہ آبادی کے بڑھنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ لوگوں کے ہاں شرح پیدائش بڑھی آبادی کی اصل وجہ یہ تھی سائنسی ایجادات کے ذریعے شرح اموات میں بہت زیادہ کمی آ گئی یہ کمی زیادہ تر شیر خوار اور کم عمر بچوں کی اموات میں ہوتی اور اس کی وجہ انسان کی صحت کے میدان میں ترقی تھی کیونکہ موذی وبائی امراض پر قابو پا کر کروڑوں افراد کو ان کا شکار ہونے سے بچا لیا گیا اور ادویات کی فراہمی سے جن میں زیادہ تر پنسلین ہے۔ جسے 1928ء میں ایجاد کیا گیا ہے ہر طرح کی جراثیم کو ختم کرنے کی کامیاب کوشش ہوئی۔
انسان بحیثیت اشرف المخلوقات دوسرے جانداروں سے محض اس لئے ممتاز ہے کہ وہ مخلوق ہونے کے باوجود منصوبہ بندی سے اپنا معاشرہ بھی ازخود تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ منصوبہ بندی کا عمل مستقبل کو اپنے انداز میں ڈھالنے کا عمل ہے نہ کہ بے بسی سے خود کو مستقبل کے حوالے کرنے کا۔مگر انسان خود سے اتنا غافل ہو گیا ہے کہ اس کو بڑھتی ہوئی اپنی تعداد کا احساس تو ہو رہا ہے مگر وہ وزارتِ صحت محکمہ بہبودِ آبادی اور یونیسف والوں کے کہنے کو درخور اعتنا نہیں سمجھ رہا ہم زندگی کے میدان میں جہاں جہاں ترقی کر رہے ہیں اس کے مثبت نتائج ہم تک اس لئے نہیں پہنچ رہے کہ آبادی ہماری کوششوں کی محنت کو کامیابی میں سے منفی کر رہی ہے۔ اس بات کو محسوس کیا جائے تو بہت بڑی بات ہے کیونکہ ہم ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ بن سکتے ہیں مگر ہماری بڑھتی ہوئی آبادی اور مسائل ہمیں اس اعزاز سے محروم رکھ رہی ہے۔ فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن کا ادارہ مکمل طور پر کام تو کر رہا ہے مگر خاطر خواہ نتیجہ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ اگر آج ہم اپنی آبادی کی شرح کنٹرول کر لیں گے تو ہمارے مسائل بھی بتدریج وقت کے ساتھ قابو میں آتے جائیں گے۔