• news

بھارت کو کھٹکنے والا سی پیک اب کوئی رول بیک نہیں کرسکے گا: اسد عمر 

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ سی پیک منصوبوں کے سکیورٹی انتطامات کو مزید تقویت دینے کے لیے ایک جامع حکمت عملی بنائی ہے اور جلد سی پیک اس مقام تک پہنچنے والا ہے جہاں کوئی اس کو روکنا بھی چاہے تو روک نہیں سکے گا۔ سی پیک کی 10ویں جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی کے اجلاس کے بعد اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ سی پیک کے منصوبوں کے لیے چین کے مزدور واپس آ گئے تھے اور ان پر کام دوبارہ شروع ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج جن معاہدوں پر دستخط ہوئے ان میں سب سے خوش آئند یہ امر ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا جوائنٹ ورکنگ گروپ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق اور ان کے چینی ہم منصب نے اس پر دستخط کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ہماری معیشت میں زراعت اس لحاظ سے سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ دو تہائی آبادی کا زراعت پر بالواسطہ یا بلاواسطہ انحصار ہے۔ لیکن اگر آپ کل کی دنیا کو دیکھیں تو یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل کی دنیا ہے اور چین نے تمام ٹیکنالوجیز میں بہت تیزی سے ترقی کی ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ موبائل فون اور وائی فائی ٹیکنالوجی کے لیے چین اور امریکا کے درمیان مقابلہ چل رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چین نے کتنی ترقی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ڈیجیٹل پیمنٹ پورٹلز پر بھی مقابلہ ہے۔ اس وقت سب سے بڑی ٹرانزیکشنز کرنے والی آن لائن ڈیجیٹل پورٹل سسٹم بھی ایک چینی کمپنی ہے اور اس کا ایک ذیلی ادارہ 'علی پے' کے نام سے پاکستان میں کام بھی کررہا ہے جو علی بابا گروپ کی کمپنی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بہت سے ایسے شعبے ہیں جس میں چین نے عالمی سطح پر بہت کامیابی حاصل کی ہے اور پاکستان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت میں بھی بہت تیزی سے ترقی ہو رہی ہے۔ اسد عمر نے کہا کہ پچھلے سال ہم نے دیکھا کہ ہماری انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایکسپورٹ میں ایک سال میں 47 فیصد اضافہ ہوا اور 1.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ ہوئی جبکہ مزید ترقی کی بھی امید ہے۔ پاکستان میں بڑی تعداد میں نوجوان انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس شعبے میں کام کر رہے ہیں تو ہمارے خیال میں بہت زبردست مواقع پیدا ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس دوسری مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے وہ چین کی ننگ بو پورٹ اور گوادر پورٹ کے درمیان فریم ورک کا معاہدہ ہے کیونکہ گوادر پورٹ سی پیک کے تمام منصوبوں اور پاکستان کی معیشت کے لیے بھی کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ اس کے علاوہ وزارت بحری امور نے کوسٹل ڈویلپمنٹ کا منصوبہ بنایا ہے جس کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں اور چینی کمپنی سی آر بی سی کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سماجی ترقی کے حوالے سے چین بلوچستان کے لیے سولر پاور کے آلات اور طبی آلات عطیہ کررہا ہے جبکہ اس کے علاوہ بڑے منصوبوں جیسے انفرا سٹرکچر کے منصوبوں، موٹرویز پر بھی بات ہوئی کہ وہ کس مرحلے میں ہیں تو جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی میں وسیع پیمانے پر تعاون کا اظہار نظر آئے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دوران چین اور ہم نے سکیورٹی پر سب سے زیادہ زور دیا۔ جیسے جیسے سی پیک کا دائرہ کار وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری آئی ہے اور رشاکئی میں منصوبہ لگ رہا ہے تو چینی سرمایہ کاری بڑھنے کے ساتھ ہی سکیورٹی کی اہمیت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اسد عمر نے کہا کہ داسو حملے میں مزدوروں کی ہلاکت پر دونوں ملکوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا اور اس بات کا اعادہ بھی کیا تھا کہ جن لوگوں نے یہ گھناؤنا جرم اور دہشت گردی کی واردات کی تھی ان کو پکڑا جائے اور سزا بھی دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے ایک ماہ میں سکیورٹی انتطامات کو مزید تقویت دینے کے لیے ایک جامع حکمت عملی بنائی ہے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے وزارت داخلہ میں خصوصی سیل بنایا گیا ہے جو ناصرف چین بلکہ ملک میں کام کرنے والے غیرملکیوں کی نگرانی کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سی پیک دنیا میں چند طاقتوں خصوصاً مشرق میں موجود ہمارے ہمسائے کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ وہ صرف فزیکل حملہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ففتھ جنریشن ہائبرڈ وارفیئر کا زمانہ ہے جس میں سوشل میڈیا پر غلط خبریں پھیلانا، جعلی خبریں اور انٹرنیشنل میڈیا میں غلط خبریں لگانا شامل ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ چین اور پاکستان کی قیادت سے لے کر عوام تک سب دونوں ممالک کی دوستی اور باہمی شراکت کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں لہٰذا جو بھی ہوگا اس کا مقابلہ بھی کیا جائے گا اور جیسے جیسے وسعت آ رہی ہے تو مجھے یہ لگتا ہے کہ ہم سی پیک میں جلد اس فیصلہ کن مقام تک پہنچنے والے ہیں جہاں کوئی اسے روکنا بھی چاہے تو نہیں روک سکتا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے کے حوالے سے خبر یہ ہے کہ بہت جلد وزیراعظم کراچی جا کر کراچی سرکلر ریلوے کے انفراسٹرکچر کا افتتاح کریں گے۔ کل اگر ایکنک اس کی منظوری دے تو چند دن میں وزیر اعظم کراچی جا کر افتتاح کردیں گے۔ معاون خصوصی برائے سی پیک خالد منصور نے کہا کہ چین کو فوج اور بحریہ کی مدد سے بہت جامع بریفنگ دی گئی اور ان اداروں نے یہ باور کرایا کہ ان کی سکیورٹی کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے۔ وہ بریفنگ چینی سفارتخانے کو دی گئی اور اس ایکسپریس وے پر جو کام رک گیا تھا ان لوگوں نے دوبارہ کام شروع کردیا ہے۔ سوال پر اسد عمر کا کہنا تھا کہ ابھی تک اس منصوبے پر دوبارہ کام شروع نہیں ہو سکا۔ داسو کا منصوبہ سی پیک میں شامل نہیں ہے۔پاکستان اور چین نے سی پیک کی جے سی سی کے اجلاس  میں اتقاق کیا ہے کہ  سی پیک کے تحت صنعتی تعاون کے فریم ورک  کو جے سی سی کے آئندہ اجلاس  سے قبل حتمی شکل دے دی جائے گی۔ جے سی سی کے اجلاس میں  کراچی  کوسٹل ڈویلپمنٹ زون پراجیکٹ کے لئے کراچی پورٹ  ٹرسٹ اور چائنا روڈ اینڈ بریج ڈویلپمینٹ کارپوریشن کے درمیان  ایم او یو پر دستخط کر دئے گئے ،انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مشترکہ ورکنگ گروپ بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، گوادر ایکسپو سینٹر  کی لیز کی دستاویز پر دستخط کرنے  کا علا ن کیا گیا۔ بلوچستان کو  سولر پاور لائٹنگ آلات فراہم کئے جائیں گے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری  پر مشترکہ تعاون کمیٹی کا 10 واں اجلاس  ویڈیو کانفرنس کے ذریعے منعقد ہوا۔ اجلاس کی مشترکہ صدارت منصوبہ بندی ، ترقی اور خصوصی اقدامات کے وزیر  اسد عمر اور عوامی جمہوریہ چین کے قومی ترقی اور اصلاحاتی کمیشن (این ڈی آر سی) کے وائس چیئرمین  ننگ جیزے نے کی۔  وفاقی وزیر اسد عمر نے اپنے چینی ہم منصب کو عوامی جمہوریہ چین کی 72 ویں سالگرہ اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کی 100 ویں سالگرہ پر مبارکباد دی۔ ای سی کے دوران زیر بحث معاملات میں شامل تھے: 700 میگاواٹ آزاد پتن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ جنوبی شمال گیس پائپ لائن تھر کول گیسفیکیشن کے لیے پالیسی فریم ورک سٹریٹجک زیر زمین گیس ذخیرہ  کے علاقے کا قومی زلزلہ مطالعہ، دھاتی معدنیات کی تلاش ، ریسرچ ، ترقی اور مارکیٹنگ ، دیر موٹروے پراجیکٹ پشاور - ڈی آئی خان موٹروے کلین اینڈ گرین گوادر موومنٹ پراجیکٹ کراچی ساحلی جامع ترقی کا علاقہ کاپر گولڈ کان کی تلاش  پتھروں کی پروسیسنگ اور باہمی دلچسپی کے دیگر شعبوں میں ممکنہ تعاون پر غور کیا گیا۔ صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے منصوبوں کی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا اور نئے منصوبوں کے لیے تجاویز دیں۔ 

ای پیپر-دی نیشن