• news
  • image

فیس بکی سیاپے 

سیاپا اور سراپا آپس میں دور پار کے کزن بھی نہیں لیکن کرونا اور سوشل میڈیا نے جہاں.بہت سے فاصلوں کو پاٹنے میں.اہم کردار ادا کیا ہے وہیں بہت سے حقائق بھی جامے سے باہر نظر آنے لگے ہیں جن پر اپنی مرضی کے لباس پہنا کر انھیں ہر تقریب میں انٹری دی جاتی ہے .الفاظ کی بندش سے بھی خود ساختہ آزادی نے ایسے کرتب دکھائے ہیں جنھیں محض زبان کی پھسلن یا ٹائپنگ کی غلطیاں کہہ کر نظر انداز نہیں.کیا جا سکتا .فیس کا تعلق سراپا اور بک یعنی کتاب گویا 
 آگہی اک عذاب ہے یا رب  کا تعلق سیاپا کے ساتھ ہی بنتا ہے .منڈیر پر کالا, کاسنی یا دیگر رنگوں کے دوپٹے دیکھ کر سراپا پر اشعار کہنے والے اب کہاں اب نہ تو .وہ رکھ رکھاو رہا نہ جذبات میں وہ گدگدی آمیز سرور .تیز رفتاری کی اس دنیا میں بے شمار ایسے واقعات ہیں کہ جب فلٹرز کی دبیز تہہ سے سراپا بر آمد ہوا تو ایسا سیاپا پڑا کہ بس …. بے اختیار یاد آیا کہ 
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں.کی ریزہ کاری ہے 
 اس سیاپے میں کئی دانش ور بھی جامے سے باہر نظر آتے ہیں جن کا وجود ہی نہیں .سراپا میں.البتہ.جامہ میں رہنا لازمی تصور کیا جاتا ہے۔
سراپا میں شاعر اپنے محبوب کا نقشہ بیان کرتا ہے،قدوقامت اور خدوخال ظاہر کرتا ہے اور ممدوح کے اوصاف اور اس کی عادات واطوار پر روشنی ڈالتا ہے۔ لیکن.فیس بک پر مخالفین کی ایچی بچی بتا کر ایسے سیاپے کا آغاز ہوتا ہے جس میں ایک ہجوم کس و ناکس کی مانند حصہ بقدر جثہ ایسے ڈالتا ہے کہ مجال ہے کوئی رخنہ آئے .ایک عورت کی نے سونے کی نئی انگوٹھی بنوائی. کئی بہانوں سے اس نے سب کو دکھانا چاہی لیکن حالات آج.کل جیسے ہی تھے عوام بے چاری اپنا اور گھر والوں کی بھوک دیکھے یاانگوٹھی . آخر عورت نے اپنے گھر میں آگ لگا دی .آنا فانا آگ پھیل گئی .لوگ بھاگے آئے اور پوچھا کیا نقصان ہوا .عورت نے ہاتھ لہراتے ہوئے کہا بس یہ انگوٹھی بچ گئی باقی سب کچھ جل گیا .ایسی کئی بچی ہوئی انگوٹھیاں فیس بک پہ گردش کرتی ہیں .بلکہ سکرین شاٹ کی صورت ان.کی پروموشن کی جاتی ہے . محبت اور روزگار کے غم تو اب لازمہ تصور ہو چکے .لیکن گالیاں کھا کے بھی بے مزا نہ ہونے والے نہیں رہے . ایک صاحب کو یہ بھی غم لاحق ہوا کہ کسی نے  ان کو چوہا کہا عوامی فرمائش پر دنیا بھر کے چوہوں.کی تصاویر سے یہ تلاش کرنا مشکل ہو گیا کہ ان کو دیا گیا لقب کس چوہے سے میل کھاتا ہے .اس پر ابھی تحقیق جاری ہے۔ کتھا میں اس کی صورت مجسم ہے .
 " ایسے غم ، رنج سوگ ، وائے واو یلا ،رونا ، آفت ، مصیبت
اب سراپا شناسی ایک فن بن چکا ہے اور بیک وقت کئی سراپا رکھنے والے اس فن کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں .کتا کان لے گیا کی کہاوت حقیقت بن چکی ہے .اب لڑائی کے لیے میدان ہوا میں تعمیر کیے جاتے ہیں اور زمین سے دانش ور خلا میں چھلانگیں مارتے رہتے ہیں .سب کو وہی نظر آتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے .آپ کی قسمت کا احوال .آپ کی شخصیت کے روشن پہلو .آپ کی حساسیت .قابلیت . یہ سب آپ کے قریبی لوگوں پر کہاں کھلتا ہے البتہ بحر اوقیانوس کے پار کھلتا ہے . 
فیک آئی ڈی کی سہولت نے گالیاں دینے اور پگڑی اچھالنے کے فن میں طاق کر دیا ہے .دما دم مست قلندر کا عالم ہے لیکن روح سے خالی ڈھانچے اپنی شناخت چھپائے اس کھیل میں ایندھن ڈالے جا رہے ہیں آگ پھیلتی جارہی ہے . جس کا جی چاہتا ہے اس میدان میں دوست دشمن کی تخصیص کیے بنا ہتھیار لہراتا سر بکف نعرہ لگاتا ہے. ایک سپاہی نے دشمن کو خاک چٹانے کے بعد جب فون دیکھا تو پیغام تھا ۔ 
, میں تمہاری منگیتر ہوں .تمہیں بتایا تو تھا نئی آئی .ڈی بنائی ہے .گڑیا کی تصویر اپنی سہیلیوں کو جلانے کے لیے تھی .تم سے یہ امید نہ تھی " 
کاش انگوٹھی بچانے کے لیے گھر نہ جلیں . 
 سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا ہم کو 
وگرنہ ہم خدا تھے گر دل بے مدعا ہوتے

epaper

ای پیپر-دی نیشن