بلوچستان میں ’’باپ‘‘ کی مشکلات
حکومت بلوچستان اس وقت بظاہر پرسکون رہنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مگر صوبائی محکموں میں مختلف اداروں میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ سرکاری کام کاج ٹھپ پڑا ہے۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ حالات اتنے اچھے نہیں جتنے معلوم ہو رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ جام میں یہ خوبی ضرور ہے کہ وہ مشکل حالات میں بھی گھبرانے سے پرہیز کرتے ہیں اور خود کو پرسکون رکھتے ہیں۔ مگر دیگر وزیر اور مشیر ان صلاحیتوں سے محروم ہیں۔ انہیں شاید جانے کی زیادہ جلدی ہے۔ پہلے وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف جو تحریک عدم اعتماد آئی وہ اپوزیشن کی تنہا کوشش پرواز تھی۔ اب کے بار جو تحریک عدم اعتماد آ رہی ہے اس میں اپوزیشن کے ساتھ حکومتی ارکان اور جام حکومت کے وزرا بھی شامل ہیں۔ اس طرح یہ زیادہ خطرناک صورتحال ہے ان کیلئے۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے بھی جام حکومت کو بچانے کیلئے اپنے وزرا کو متحرک کیا مشترکہ دوستوں کی مدد سے صورتحال سنبھالنے کی کوشش بھی کی مگر اندرون خانہ یہ کوششیں زیادہ بار آور ثابت نہیں ہو سکیں جس کے بعد بالآخر چیئرمین سینٹ قاسم سوری کو معاملہ طے کرنے کیلئے میدان میں اتارا گیا۔ قاسم سوری کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے۔ وہ خود بھی تحریک عدم اعتماد کا سامنا کر کے سرخرو ہو چکے ہیں۔ کس طرح ہوئے یہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔ اب دیکھنا ہے وہ بلوچستان میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کو پتہ ہے کہ بلوچستان کا اسکی سیاست کا اپنا ایک مزاج ہے۔ وہاں باقی صوبوں کی طرح اشرافیہ اور وزیر و مشیر ہی حکمرانی نہیں کرتے۔ وہاں کے نواب سردار میر اور خان قبائلی طرز معاشرت کے مطابق ابھی تک اپنے فیصلے صادر کرتے ہیں۔ خواہ حکومت میں ہوں یا حکومت سے باہر انکے فیصلوں پر جس پر ہر قبیلہ اور معاشرہ عمل کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس فیصلے کیخلاف چلتا ہے تو پھر وہ ا س معاشرے سے قبیلے سے خارج ہو جاتا ہے اور اسکی زندگی کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔ اسکے اپنے بھی بیگانے بن جاتے ہیں۔ اب گرچہ ماحول بدلا ہے تعلیم نے سوشل میڈیا نے ذہنی شعور سمیت بہت کچھ بدل دیا ہے مگر تمام تر آزاد خیالی کے باوجود ابھی قبائلی اور سرداری نظام اپنی جگہ موجود ہے۔ اب جام حکومت کے خلاف چونکہ تحریک عدم اعتماد میں سردار، نواب ، میر اور خان سب موجود ہیں اس لیے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کب کیا ہو جائے۔ قاسم سوری اپنی طرف سے جو ہو سکتا ہے کر رہے ہیں مگر جہاں مقابلے پر نواب اور سردار موجود ہوں تو بہرحال مقابل خواہ وہ کتنی بڑی پوزیشن پر ہی فائز کیوں نہ ہو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر جب صوبے میں امن و امان کی صورتحال ابتر ہو۔ گڈگورننس کا دور تک نام و نشان نہ ہو۔ بڑے عہدوں پر کم تعلیم یافتہ اور میرٹ سے ہٹ کر سفارشی لوگوں کا قبضہ ہو۔ عوام انصاف کے حصول اور طبی سہولتوں کیلئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہوں۔ سڑکوں ہسپتالوں اور سرکاری عمارتوں کی ابتر صورتحال حکومتی ٹھیکیداروں اور افسران کی لوٹ مار کی عکاس ہو۔ تعلیمی ادارے بھوت بنگلے اور سرکاری دفاتر کام چوروں کا اڈہ بن گئے ہوں۔ رشوت اور سفارش کا کلچر عام ہو تو اس صورتحال میں کون حکومت کی حمایت میں زبان کھول سکتا ہے۔ اہم سرکاری منصوبے سست روی کا شکار ہیں۔ صوبائی حکومت سب کچھ دیکھ کر بھی خاموش ہے۔ اتحادیوں کو خوش رکھنے پر مجبور ہے۔ الغرض کسی سمت بھی بہتری کی راہ نظر نہیں آ رہی تو قاسم سوری صاحب کس کس کو مطمئن کریں۔ وعدے کر کے حالات ٹالنے کی کوشش زیادہ دیر کامیاب نہیں ہوتی اس کا علم ان کو بھی ہے۔ بلوچستان کے عوام بھی انسان ہیں وہ بھی مہنگائی، بیروزگاری ، پانی بجلی، تیل اور گیس کے بلوں میں اضافے نجات چاہتے ہیں۔ صحت اور تعلیم کی سہولتیں مانگتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے اگر اپوزیشن متحد ہو کر عوامی مسائل کو سامنے رکھ کر انکے حل کو اپنی سیاست کی بنیاد بناتی ہے اور تحریک عدم اعتماد کے فیصلے پر قائم رہتی ہے تو پھر واقعی میکدے میں بھونچال آ سکتا ہے۔ کئی لوگوں کے ہاتھ سے جام چھن سکتے ہیں۔ پھر دیکھتے ہیں نیا ساقی کون بنتا ہے۔ کس کس کے ہاتھ میں جام چھلکتا ہے اور کون کون سے ہونٹ جام سے تر ہوتے ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ حالات جب بھی بدلتے ہیں تو فائدہ اشرافیہ کو ہی ہوتا ہے۔ مراعات یافتہ لوگ ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ عوام الناس کے حصے میں وہی پیاس آتی ہے ۔ انکے مسائل وہی رہتے ہیں۔ انکے غم میں آنسو بہانے والے ہی ان کا خون چوستے ہیں۔ جام صاحب تو پڑھے لکھے سنجیدہ اور دیندار بھی ہیں تو وہ کیوں ان بندشوں اور پابندیوں سے بچ کر عوام کیلئے کچھ نہ کر سکے۔ ان سے تو کافی امیدیں تھیں۔ وفاقی حکومت بھی انکے سر پر تھی۔ فنڈز بھی آ رہے تھے تو پھر کیا ہوا۔ کیا سب مال متاع وزیر کھا گئے اور بدنامی جام صاحب کے حصے میں آئی۔