رمیز راجہ کی ترجیح وقار، معیار اور اعتبار!!!
رمیز راجہ نے عہدہ سنبھالتے ہی ملک میں کرکٹ کے معیار کو بلند کرنے کے عزم کا اظہار کیا، بدقسمتی سے شروع میں ہی انہیں نامناسب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگر نیوزی لینڈ، انگلینڈ کا دورہ معمول کے مطابق ہوتا تو حالات قدرے مختلف ہوتے لیکن خوش آئند بات ہے کہ مشکل اور غیر معمولی حالات میں بھی رمیز راجہ کی توجہ کلب اور فرسٹ کلاس کرکٹ پر ہے۔ رمیز راجہ کاکہنا ہے کہ کلب اور ڈومیسٹک کرکٹ پر پوری توجہ ہے لوگوں سے مل رہا ہوں۔ ایجنڈے میں کلب کرکٹ اور ڈومیسٹک کرکٹ سب سے اوپر ہے۔ جب بھی رمیز راجہ کلب اور ڈومیسٹک کرکٹ کی بات کرتے ہیں تو سابق چیئرمین احسان مانی یاد آتے ہیں کیونکہ جب وزیراعظم عمران خان نے انہیں نامزد کیا تھا تو انہوں نے بھی سب سے پہلے ڈومیسٹک کرکٹ کو تگڑا کرنے کا بیان جاری کیا تھا۔ یہ الگ بات کہ ان کے تین سالہ دور میں سب سے زیادہ نظر انداز اسی کرکٹ کو کیا گیا۔ یہاں تک کہ وزیراعظم عمران خان کے دیرینہ دوست اور کرکٹ بورڈ کے سابق ڈائریکٹر گیمز ڈیویلپمنٹ مدثر نذر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ احسان مانی نے عمران خان کے وژن کو تباہ کر دیا ہے۔
اب رمیز راجہ ملکی کرکٹ کے فیصلے کر رہے ہیں۔ ان پر سب سے بڑی ذمہ داری کھیل کے مواقع بڑھانا، کھلاڑیوں کے معاشی مستقبل کا تحفظ اور ملکی کرکٹ کے معیار کو بلند کرنا ہے۔ اب تک انہوں نے جتنی بات کی ہے اس کا سب سے اہم حصہ ملکی کرکٹ کا معیار بلند کرنا ہے۔ معیار کی بہتری نچلی سطح کے انتظامات، قابل افراد کی نظام میں شمولیت اور کھلاڑیوں کے لیے پیسے کی صورت میں کھیل کی طرف کشش ہے۔ اگر نئے چیئرمین ان شعبوں میں کامیاب ہوتے ہیں تو یقیناً انہیں ایک کامیاب منتظم سمجھا جائے گا۔ ویسے انہوں نے ایک لاکھ ماہانہ اضافہ کر کے پیغام دیا ہے کہ کرکٹرز کے معاشی مستقبل سے بہتر کچھ نہیں ہے۔ رمیز راجہ کی پاکستان کرکٹ کے ساتھ طویل اور گہری وابستگی کو دیکھتے ہوئے ان سے بہت امیدیں اور توقعات ہیں۔
جہاں تک عزت اور وقار کا معاملہ ہے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی طرف سے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کے بعد یہ کیس رمیز راجہ کے لیے ٹیسٹ کیس ضرور بنا۔ اس حوالے سے ان کی طویل المدتی پالیسی کیا ہو گی اس بارے ان کے فیصلوں کا انتظار رہے گا لیکن یہ حقیقت ہے کہ فوری طور پر ایک چیئرمین کی حیثیت سے جو ردعمل انہوں نے دیا ہے وہ ہر پاکستانی کی آواز ہے۔ انہوں نے حقیقی معنوں میں عوامی جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کی عزت اور وقار کو نقصان پہنچانے والوں کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی بلکہ اپنا موقف واضح، دو ٹوک انداز میں اور دلیری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ بائیکاٹ جیسے جذباتی فیصلوں کے بجائے نظام میں رہ کر اپنا آپ منوانے اور اپنا حق لینے کا راستہ اختیار کرنے کا پیغام دیا ہے۔ انہیں سب سے زیادہ رنج مہمان ٹیم کی طرف سے اچانک، غیر متوقع اور بداعتمادی کے سے رویے سے پہنچا ہے۔ یقیناً نیوزی لینڈ کے اس رویے سے حکومت پاکستان، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور کھیل سے محبت کرنے والے کروڑوں پاکستانیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین نے وطن سے محبت کرنے والے ایک پاکستانی کی طرح دنیا تک اپنا پیغام پہنچایا ہے۔ مہذب انداز میں وہ جس حد تک احتجاج کر سکتے تھے اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس وقت پاکستان میں ہر دوسرا شخص نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے فیصلے پر افسردہ اور غمزدہ ہے۔ پاکستان لگ بھگ چھ سال تک دنیا کی بہترین ٹیموں کی میزبانی کرنے سے محروم رہا پھر دو ہزار پندرہ میں زمبابوے کی آمد سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ پاکستان سپر لیگ کی وجہ سے اس کام میں تیزی آئی اور ہماری آواز زیادہ بہتر انداز میں دنیا تک پہنچی۔ اب تو یہ معاملہ پاکستان مکمل سیریز کی بحالی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس وقت میں ان دونوں ممالک نے بداعتمادی پھیلا کر پاکستان کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ دونوں کرکٹ بورڈز کے اس فیصلے کو دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ انگلینڈ کے اندر سے بھی انگلش کرکٹ بورڈ کے اس فیصلے کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ ابتدائی طور پر یہی پاکستان کے موقف کی جیت ہے۔
رمیز راجہ ماضی میں ایسے معاملات پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی پالیسیوں سے خوش نظر نہیں آتے ان کے خیال میں پاکستان کو استعمال کیا جاتا رہا اور کرکٹ بورڈ استعمال ہوتا رہا لیکن اب انہوں نے یکطرفہ محبت ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ رمیز راجہ جب ماضی کے فیصلوں کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو یقیناً ان کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر وسیم خان بھی سن رہے ہوتے ہیں کیونکہ ماضی قریب میں انہوں نے انگلینڈ کی مشکل حالات میں سب سے زیادہ مدد کی اس حوالے سے انہیں تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا، جب رمیز کلب، ڈومیسٹک کرکٹ کو مضبوط کرنے کی بات کرتے ہیں تو گذشتہ دو تین برس میں اس کرکٹ کو تباہ کرنے والے بورڈ افسران ضرور سنتے ہوں گے۔ ان سب کے احتساب کی بھی ضرورت ہے۔ نئے چیئرمین نے اعلان کیا ہے کہ کرکٹ بورڈ میں ایک ماہ میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا تبدیلیاں کرتے ہیں۔ جہاں تک ابتدائی ردعمل کا تعلق ہے اس میں انہیں پورے نمبر دیے جا سکتے ہیں۔ اب اس سے آگے بڑھ کر پاکستان کرکٹ کے معیار اور وقار بلند کرنے عزت میں اضافے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہیں۔ اعتماد کی بحالی کے لیے کام کرنا ہے لیکن اس مرتبہ حکمت عملی مختلف ہو گی۔
اب عوام کی نظریں صرف پاکستان ٹیم پر ہی نہیں بلکہ رمیز راجہ پر بھی ہیں۔ انہیں مختصر وقت میں بڑے بڑے کام کرنے ہیں۔ اگر وہ کھیل کی بہتری کے منصوبے شروع کر کے انہیں مکمل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، پاکستان کرکٹ کے معیار کو بلند، عزت اور وقار میں اضافے کا باعث بنتے ہیں تو یقیناً ایک کامیاب منتظم کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔