• news
  • image

احسن اقبال کا یو ٹرن،استعفوں کی مخالفت شروع!!!!!

احسن اقبال ایک وقت میں اسمبلیوں سے استعفے دینے کے حامی سمجھے جاتے تھے بلکہ بڑے وکیل سمجھے جاتے تھے وہ سیاسی مخالفین کو یو ٹرن کے طعنے بھی دیتے تھے لیکن اب انہوں نے بھی یو ٹرن لے لیا ہے۔ وہی احسن اقبال اب اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے شدید مخالف ہو گئے ہیں۔احسان اقبال کہتے ہیں کہ اگر اپوزیشن نے اسمبلیوں سے استعفے دیے تو عمران خان الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں والا قانون منظور کروا لیں گے۔ احسن اقبال ذرا اپنے ووٹرز کو اب یہ ضرور بتائیں کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں دراڑ کی وجہ کیا تھی اور پاکستان پیپلز پارٹی الگ کیوں ہوئی، ایک وقت میں تو احسن اقبال اور ان کی جماعت کے کئی مفاد پرست جن کی سربراہی مریم نواز شریف کر رہی تھیں وہ اسمبلیوں سے استعفوں کے سب سے بڑے وکیل بنے ہوئے تھے آج موقف سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ اب پاکستان پیپلز پارٹی کو کیا منہ دکھائیں گے۔ پہلے انہوں نے پیپلز پارٹی کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔ اب احسن اقبال بھی استعفوں کی مخالفت کر رہے ہیں کیا مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز شریف انہیں بھی شوکاز نوٹس جاری کریں گے۔ حالات ثابت کر رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن، مریم نواز شریف نے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کو یرغمال بنایا تھا، پاکستان پیپلز پارٹی نے اس اتحاد سے علیحدہ ہو کر بہتر فیصلہ کیا اور آج احسن اقبال اس فیصلے کی تقلید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ احسن اقبال کہتے ہیں کہ عمران خان ووٹر لسٹیں بنانے کا کام بھی الیکشن کمیشن سے لے کر نادرا کو دے دیں گے۔ 
جناب احسن اقبال اگر آپ کئی ماہ پہلے ہ مستعفی ہو چکے ہوتے تو آج اس قابل بھی نہ ہوتے کہ یہ بات کر سکیں۔ آپ اور آپ کے ہم خیالوں نے ملک و قوم کا قیمتی وقت ضائع کیا ہے۔ آپ لوگوں نے عوامی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے اقتدار کی سیاست کو ترجیح دی، ایک ایسا اتحاد جسے بہتر انداز میں عوامی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا اور اسے عوامی فلاح و بہبود، عوامی مسائل حل کرنے کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا اسے چند مفاد پرست سیاست دان یرغمال بنا کر ذاتی فائدے حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ انہوں نے جان بوجھ کر عوام کا نقصان کیا ہے۔ یہ جو چند لوگ میاں نواز شریف یا مریم نواز شریف کے اردگرد اکٹھے ہیں ان سب نے مل کر بحرانی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ ذاتی مفادات کے لیے ملک و قوم کے مفادات کو داؤ پر لگا رکھا ہے۔
اگر یہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہ کرتے تو صورت حال مختلف ہو سکتی تھی، اگر یہ عوامی مسائل کو بنیاد بنا کر سیاست کرتے عوام کو سڑکوں پر لاتے تو عام آدمی کا بھلا ہو سکتا تھا کیونکہ کوئی حکومت عوامی احتجاج کو نظر انداز نہیں کر سکتی نہ ہی حقیقی عوامی طاقت کا مقابلہ کر سکتی لیکن مولانا فضل الرحمٰن، میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف نے پی ڈی ایم کو عوامی فورم کے بجائے سیاسی فورم بنایا، مصلحتوں سے کام لیا اور آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ایک تو اپنے ہی موقف سے ہٹنا پڑ رہا ہے اور دوسرا عوام کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا، اپوزیشن عوامی مسائل کو نظر انداز کرتی رہی، حکومت کے غلط فیصلوں سے عام آدمی کی زندگی مشکل تر ہوتی گئی۔ اپوزیشن عوامی مسائل پر سیاست کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔
آج اگر مہنگائی ملک کا دہشت گردی سے بھی بڑا مسئلہ ہے تو اس کی ذمہ دار موجودہ حکومت ہے لیکن اپوزیشن کو بھی اس سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اپوزیشن صرف اپنے مقدمات کی سیاست کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔ اس کی ذمہ داری حکومت پر نگاہ رکھنا ہوتی ہے، حکومتی فیصلوں کو دیکھتے ہوئے میرٹ پر تنقید ہوتی ہے۔ عوامی مسائل کو اجاگر کرنا اور حکومت کو عام آدمی کی بہتری کے لیے فیصلے کرنے پر مجبور کرنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان مسلم لیگ نون، جمعیت علمائے اسلام اسلام اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت حزب اختلاف کی دیگر تمام سیاسی جماعتیں حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عوامی مسائل میں اضافے کی وجہ حکومت ہے تو اس میں اپوزیشن نے بھی حصہ ضرور ڈالا ہے۔
احسن اقبال آج استعفوں کی مخالفت کر رہے ہیں انہیں عوام سے اپنے غلط موقف پر معافی بھی مانگنی چاہیے۔ انہیں عوام کو حقیقت بھی بتانی چاہیے کہ وہ کونسی طاقتیں تھیں جو پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ہی آڑ میں ملک میں سیاسی عدم استحکام پھیلا رہی تھیں، احسن اقبال کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ وہ کون تھا جو غیر جمہوری عمل کی خواہش رکھتا تھا، وہ کون تھا جو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اس سیاسی اتحاد کو استعمال کرنا چاہتا تھا۔ احسن اقبال کے سینے میں بہت سے راز ہیں انہیں ملک و قوم کے فائدے میں مفاد پرستوں کو بینقاب کرنے کے لیے قدم اٹھانا ہو گا۔ کسی بھی سیاسی شخصیت کے ساتھ تعلق دھرتی ماں سے زیادہ مضبوط تو نہیں ہو سکتا۔ اس دھرتی کا ان پر قرض ہے اگر کچھ غلط ان کے سامنے ہوتا رہا ہے تو انہیں حقائق عوام کے سامنے رکھنا ہوں گے۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم سے ملک کے دفاعی اداروں اور قومی اتحاد پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ احسن اقبال نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنے قائد سے وفاداری نبھانا چاہتے ہیں یا ہھر ملک و قوم کے ساتھ وفاداری نبھاتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اس ملک میں جمہوریت سے بہت فائدے حاصل کیے ہیں بلکہ کہا جائے کہ وہ اس کرپٹ نظام کے بہت بڑے بینیفشری ہیں تو غلط نہ ہو گا وہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے قیام کا مقصد کیا تھا اور بعد میں یہ پلیٹ فارم کن مقاصد کے لیے استعمال ہوتا رہا۔ ہمیں خود احساس کرنا چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن