صدارتی نظام سے ہمیشہ ملک کو نقصان پہنچا: عدالت عظمیٰ
پاکستان میں سیاسی اور جمہوری نظام کے مستحکم بنیادوں پر قائم نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں ایسے عناصر موجود ہیں جو جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کے لیے ہمہ وقت کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ ایسی کوششوں کے نتیجے میں نہ تو حکومت ٹھیک سے انتظامی معاملات پر توجہ دے پاتی ہے اور نہ ہی لوگوں کویہ موقع مل پاتا ہے کہ وہ حکومت میں آنے والی کسی جماعت یا فرد کی کارکردگی کا ٹھیک سے جائزہ لے کر آئندہ انتخابات میں اس بات کا فیصلہ کرسکیں کہ اسے کس پارٹی کو ووٹ دینا ہے۔اس سب کی وجہ سے تقریباً پون دہائی سے ہمارا ملک انتظامی حوالے سے ایک ہی دائرے میں چکر لگاتا جارہا ہے اور دائرے کا یہ سفر ختم ہو کر ہی نہیں دے رہا۔ اس وقت ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے لیے جو کوششیں کی جارہی ہیں ان میں ایک اس تصور کا فروغ ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کی بجائے صدارتی نظام رائج کردیا جائے۔ سوموار کو عدالت عظمیٰ کے ایک سہ رکنی بنچ نے اس حوالے سے دائر کی گئی چار درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے قرار دیا کہ ملک میں صدارتی نظام جب بھی آیا اس سے نقصان ہی ہوا۔ ملک میں ہونے والے تمام ریفرنڈمز کا نتیجہ ایک ہی تھا کہ میں صدر ہوں اور صدارتی نظام کے دوران ہی ملک ٹوٹا۔ اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ کے فاضل منصفین نے درخواست گزاروں کو یہ درست مشورہ دیا کہ اگر وہ ملک میں نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کے لیے عوامی تحریک چلائیں کیونکہ دستور میں ایسی کوئی شق موجود نہیں جو عدالت عظمیٰ کو اس بات کا اختیار دیتی ہو کہ وہ نظام کی تبدیلی کے لیے کوئی فیصلہ جاری کرے۔