دائیں بازو کا نظریاتی مؤرخ
قیام پاکستان کا زمانہ سرد جنگ کا زمانہ تھا دنیا کیمونزم اور کیپیٹلزم میں منقسم تھی البتہ کچھ ملک غیر جانبدار بھی تھے- پاکستان امریکہ اور مغرب کا اتحادی تھا-پاکستان میں سیکولر اور اسلام پسند دانشوروں کے دو گروہ تھے-ڈاکڑ صفدر محمود اسلام پسند گروپ سے منسلک ہوگئے اور وقت گزرنے کے ساتھ دائیں بازو کے نظریاتی مؤرخ بن گئے-جماعت اسلامی نے ان کو 2018 کے انتخاب سے پہلے پنجاب کا نگران وزیر اعلیٰ بنانے کی سفارش کی-ڈاکٹر صفدر محمود نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے بانی ٹرسٹیوں میں شامل تھے- طالب علمی کے زمانے ہی سے ان کو لکھنے پڑھنے کا شوق تھا وہ گورنمنٹ کالج کے میگزین راوی کے ایڈیٹر بھی رہے- سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ مختلف حکومتی مناصب پر فائز رہے-انہوں نے نظریہ پاکستان اور اسلام اور سیکولرازم کا مقدمہ بڑی بہادری جوش اور عزم سے لڑا-ان کا شمار نظریہ پاکستان کے عظیم وکیلوں میں کیا جاتا رہے گا۔ان کا شمار پاکستان کے صف اول کے مقبول کالم نگاروں میں ہوتا ہے-ڈاکٹر صفدر محمود نے بیس کتب تصنیف کیں جن میں سے چند کتابوں کا ترجمہ انگریزی چینی جرمن ازبک بنگالی سندھی اور عربی میں بھی کیا گیا-وہ ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔ ان کو قومی تاریخی خدمات کے لئے پرائیڈ آف پرفارمنس بھی دیا گیا-راقم کا ڈاکٹر صفدر محمود سے باہمی احترام اور اعتماد کا تعلق طویل عرصہ تک رہا - انہوں نے 2006 میں میری کتاب" جرنیل اور سیاستدان تاریخ کی عدالت میں" کا پیش لفظ لکھا اور میری کاوش کو سراہا-ڈاکٹر صفدر محمود کو روحانیت سے خاصا لگاؤ تھا وہ اپنے دور کے نامور صوفیوں اور درویشوں سے ملاقات کرتے رہتے- مجھے ایک روز ان کا ٹیلی فون آیا اور انہوں نے کہا کہ محترم سرفراز اے شاہ آپ کے دوست ہیں میری ان سے ملاقات کرا دیں- میں نے ان کی ملاقات کا اہتمام کر دیا-ایک دن میں نے ان سے گزارش کی کہ آپ اپنے کالموں میں صرف اسلام اور اسلامی ریاست کا ذکر کرتے ہیں جبکہ قائد اعظم اسلام کے سنہری اصولوں پر زور دیتے تھے۔ آپ بھی مہربانی فرما کر اسلام کی بات کرتے ہوئے اسلام کے سنہری اصولوں کو بیان کیا کریں تاکہ لوگوں تک قائد اعظم کا پورا پیغام پہنچ سکے- انہوں نے میری بات سے اتفاق کیا اور اپنے کالموں میں امانت دیانت صداقت انصاف مساوات برداشت اور احتساب کا ذکر کرنا شروع کر دیا -ڈاکٹر صفدر محمود چونکہ مجھ پر بہت اعتماد کرتے تھے لہذا انہوں نے پاکستان کے نامور صحافیوں سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے بارے میں اپنے ذاتی تاثرات میرے ساتھ شئیر کئے- آج چونکہ وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں اور تصدیق و تردید نہیں کر سکتے اس لئے میں یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کی باتیں امانت ہی رہنی چاہیں - ویسے بھی قرآن میں اللہ تعالی کا حکم ہے کہ ہمیں لوگوں کی پردہ پوشی کرنی چاہیے-ڈاکٹر صفدر محمود سے میری آخری ملاقات ان کی کتاب" سچ تو یہ ہے" کے حوالے سے ہوئی - جب انہوں نے اپنی کتاب مجھے بطور گفٹ بھجوائی تو میں نے بڑے شوق سے اس کا مطالعہ شروع کیا - ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنی کتاب میں یہ تحریر کیا ہوا تھا کہ ان کو ایک ایسی دستاویزی فلم موصول ہوئی ہے جو 1947 میں وفاقی حکومت کے شعبہ نشر و اشاعت نے تیار کی تھی اور جب 15 اگست 1947 کو قائد اعظم نے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو اس تقریب کی کارروائی بھی اس دستاویزی فلم میں موجود ہے جس میں قائد اعظم کو حلف لیتے ہوئے اور پڑھتے ہوئے دکھایا گیا ہے-اس دستاویزی فلم کی بنیاد پر انہوں نے بہت بڑا دعویٰ کردیا کہ قائداعظم نے اپنے حلف میں مذہب اورآئین دونوں کے ساتھ وفاداری کا اقرار کیا تھا۔ اسی دستاویزی فلم کی بنیاد پر انہوں نے اپنا پرانا دعویٰ واپس لے لیا کہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے حلف برداری کی تقریب میں پرچم کشائی کی تھی- ڈاکٹر صاحب عظیم شخصیت تھے لہذا انہوں نے کالم لکھ کرعوام سے تاریخی مغالطے پر معذرت بھی کرلی- وہ ایک تاریخی مغالطے سے تو باہر نکل آئے مگر دوسرے تاریخی مغالطے کا شکار ہو گئے- میں نے ان کو ٹیلی فون کیا اور کہا کہ آپ نے کتاب میں قائداعظم کے جس حلف کا ذکر کیا ہے وہ درست نہیں ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ 11 اگست کے خطاب میں وہ یہ کہیں کہ مذہب کو ریاست کے کاروبار سے علیحدہ رکھا جائے گا اور 15 اگست کو جب وہ گورنر جنرل کا حلف اٹھائیں تو یہ کہیں کہ وہ مذہب اور آئین کے وفادار رہیں گے- میں نے ان سے یہ بھی گزارش کی کہ اگر قائد اعظم نے اپنے حلف میں مذہب سے وفاداری کا اظہار کیا ہوتا تو پھر اس کے بعد اسلام اور سیکولرزم کی بحثیں ہی نہیں ہو سکتی تھیں- ڈاکٹر صاحب نے میری بات سے اتفاق کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ انہوں نے آٹھ دوستوں سے یہ ڈاکیو مینٹری شیئر کی ہے۔ سب نے کہا کہ یہ قائداعظم کی آواز ہے- میں چوں کہ ان کو اپنا بھائی سمجھتا تھا اس لئے میں انتہائی پریشان تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی کتاب" سچ تو یہ ہے" ان کی زندگی بھر کے پورے مقدمہ کو کمزور کر دے گی اور ان کے وقار اور ساکھ کو نقصان پہنچے گا- میں ان کو واٹس ایپ میسج بھیج کر قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا تھا کہ وہ اپنی کتاب کی اجتہادی غلطی کو درست کر لیں - میں نے ان کو قائد اعظم کے حلف کا اصل متن ارسال کیا اور گزارش کی کہ دستاویزی فلم میں قائد اعظم کی آواز نہیں ہے بلکہ ڈبنگ کرنے والے نے غلطی سے allegiance کا لفظ بولنے کی بجائے religion کا لفظ بول دیا ہے جس سے آپ کو مغالطہ ہوا ہے-میری نیک نیتی کی وجہ سے اللہ نے مجھے سرخرو کیا اور ڈاکٹر صفدر محمود نے میری بات کو تسلیم کرلیا اور کتاب کے ناشر عزیزم عبدالستار عاصم کو کہہ کر اپنی کتاب کے وہ صفحات درست کرا دیئے جن پر یہ لکھا تھا کہ قائد اعظم نے اپنے حلف میں مذہب اور آئین دونوں سے وفاداری اور پاسداری کا وعدہ کیا تھا-ڈاکٹر صفدر محمود نے مجھے ڈیفنس کلب میں چائے پر بلایا اور اظہار تشکر کیا۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ جب کوئی کسی کو بھی کہہ دے تو دونوں کی عزت اور وقار سانجھا ہو جاتا ہے- میں نے اس ملاقات میں نے ان سے پاکستان جاگو تحریک کے اغراض و مقاصد کے بارے میں مشاورت کی انہوں نے اتفاق کیا کہ پاکستان میں بیداری اور شعور کی تحریک کی ضرورت ہے اور انگریزوں نظام کو تبدیل کرکے ہی ہم اپنے مسائل حل کر سکتے ہیں - ڈاکٹر صفدر محمود نے نظریہ پاکستان کے ساتھ ساتھ قومی زبان اردو کو دفتری سرکاری عدالتی اور امتحانی زبان بنانے کی وکالت بھی کی اور اس اہم قومی مسئلے پر کئی کالم بھی تحریر کیے-گزشتہ دنوں مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے ہال میں قومی زبان اردو تحریک کی جانب سے ڈاکٹر صفدر محمود کے لئے ایک تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا گیا جس کا سہرا مجاہدہ اردو محترمہ فاطمہ قمر‘ محترم جمیل بھٹی‘ محترم پروفیسر سلیم ہاشمی کو جاتا ہے- اس تعزیتی ریفرنس میں محترم مجیب الرحمٰن شامی محترم سرفراز سید‘ محترم اسلم کمال‘ محترم تاثیر مصطفی‘ محترم ڈاکٹر حسین احمد پراچہ‘ محترم ڈاکٹر زاہد منیر‘ محترم ڈاکٹر فرید پراچہ نے ڈاکٹر صفدر محمود کی قومی تاریخی اور علمی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کیا - ڈاکٹر صفدر محمود کی شخصیت کا ذکر اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک ہم ان کی انتہائی نفیس اور با وقار اہلیہ کا ذکر نہ کریں جنہوں نے ایک بیوروکریٹ کو مقبول نظریاتی مورخ بنانے کے لئے دل و جان سے تعاون کیا-
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے