• news

 او جی ڈی سی ایل اور پی ایس او خسارے میں ہیں، ذیلی کمیٹی پی اے سی

اسلام آباد(نا مہ نگار)پارلیمنٹ کی پبلک اکانٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی میں انکشاف ہوا ہے کہ قومی ملکیت میں چلنے والے ادارے او جی ڈی سی ایل اور پی ایس او خسارے میں ہیں جبکہ کارکردگی اچھی نہ ہونے کی وجہ سے یہ ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں ، او جی ڈی سی ایل کے اندر بے ضابطگیوں اور مافیا کی مناپلی کے باعث ایم ڈی مستعفی ہو چکے ہیں جبکہ کمپنیوں کو آڈٹ پیراز پر جواب اور وضاحت نہ دینے اور پر وفاقی تحقیقاتی ادارے اور قومی احتساب بیورو کی کارگردگی پر چیئر مین کمیٹی نے کھری سنا دیں ،چیئرمین نیب کی کمیٹی میں عدم شرکت اور کیسز کے حوالے سے معلومات اور ایکشن نہ کرنے پر کمیٹی کے سربراہ نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پارلیمنٹ کی پبلک اکانٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینر کمیٹی نوید قمر کی صدارت میں ہو۔ا اجلاس میں وزارت توانائی کے سال 2010-11سے 2017-18تک کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا، کمیٹی کے سامنے پیش کی گئی آڈٹ بریفنگ کیمطابق2009سے 2014کے دوران مسابقتی کمیشن کی جانب سے مختلف کمپنیوں پر عائد کئے گئے جرمانوں اور کارگردگی ،تقرریوں قیمتوں میں رد و بدل کے ساتھ لائسنسز کی منسوخی کے حوالے سے تفصیلی بات ہوئی پبلک اکاونٹ کمیٹی سیکٹریٹ حکام کی جانب او جی ڈی سی ایل اور پی ایس او سمیت ایس ایس جی سی ایل کی تمام 2009سے 2017تک کی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا او جی ڈی سی ایل، پی ایس او، پی پی ایل، ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی کے کیسز میں مالی غلطیاں بھی دیکھی گئیں جبکہ پیٹرولیم ڈویژن اور اس کی ذیلی تیل اور گیس کمپنیوں میں مالی سال 19-2018کے دوران 15کھرب 43 ارب روپے کی بے ضابطگیوں اور بدعنوانیوں کی نشاندہی کی ہے۔ایک آڈٹ رپورٹ میں آڈیٹر جنرل پاکستان نے وزارت توانائی، پیٹرولیم ڈویژن میں انتظامی کمزوریوں پر سنگین تحفظات کا اظہار کیا ہے ، ایس ایس جی سی کی آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ جب ملک کو گیس کی قلت کا سامنا تھا تو پیٹرولیم ڈویژن ایکسپلوریشن اور پیداواری کمپنیوں کی جانب سے کام میں کوئی پیش رفت ظاہر کیے بغیر لائسنسز میں ناجائز توسیع دیتا رہا۔دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2019سے 2016کے درمیان مجموعی طور پر158ایکسپلوریشن لائسنسز جاری کیے گئے جس میں 37کمپنیوں نے واپس کردیے ،ایس ایس جی سی حکام کا اس موقع پر کہنا تھا کہ کراچی میں گیس چوری کی وجہ میٹر دینا روک دئیے گئے ہیں دو بڑے ایریاز کورنگی اور اور ناظم باد کے انڈسٹریل ایریاز میں ستر فیصد کام ختم ہو چکا ہے کمیٹی ممبر سید حسین طارق نے اس موقع پر کہا ہے کہ بلوچستان میں کنٹریکٹرز کو بغیر اشتہار کئے ہائیر کرتے ہیں ، ایک سو چار ملین سی این جی کے بقایہ جات ہیں آڈٹ پیراز کو کیسے کلئیر کیا جائے گا جبکہ جعلی ڈگری ہولڈرز کی تقرریوں کے معاملا پر چئیرمین کمیٹی نوید قمر نے کہا ہے کہ امید کرتے ہین کہ مکمل ہونے والی انکوائری پر نیب کوئی جواب دے جبکہ تین باقی ہیں باقی سب کو فارغ کر دیا ہے

ای پیپر-دی نیشن