پارٹی میں تقسیم کی خبروں پر نواز شریف کی واپسی کا شوشہ چھوڑا گیا
تجزیہ:محمد اکرم چودھری
میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی خبریں خاندانی اور جماعت میں اختلافات کی خبروں کا اثر زائل کرنے کے لیے ہیں۔ جو لوگ میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے خواہش مند ہیں یا پھر وہ انہیں پاکستان میں دیکھنا چاہتے ہیں وہ صرف وہی گفتگو یا دلیل پیش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جس کے ذریعے میاں نواز شریف اچانک لندن سے اڑیں گے اور لاہور پہنچ جائیں گے حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ میاں نواز شریف لندن موجود ہیں اور اظہارِ خیال ان کا بنیادی حق ہے وہ ہفتے میں اکیس مرتبہ روزانہ صبح، دوپہر شام کر سکتے ہیں انہیں کوئی روک نہیں سکتا لیکن ان کی فوری طور پر پاکستان واپسی کے امکانات بہت کم ہیں۔ بعض حلقوں میں یہ بحث ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات سے قبل وطن واپس آئیں گے اس صورت میں بھی مثالی صورت حال بیان کی جاتی ہے۔ دو ہزار تئیس میں بھی ان کی واپسی کے راستے میں اگر اور مگر کی اتنی رکاوٹیں ہیں کہ انہیں عبور کرنا میاں نواز شریف کے لیے آسان نہیں ہو گا۔ بہرحال انہیں واپسی کا حق تو حاصل ہے ان کا اپنا ملک ہے وہ تین مرتبہ وزیراعظم رہے ہیں انہیں تو علاج کے نام پر بیرون ملک جانا ہی نہیں چاہیے تھا وہ علاج کے لیے گئے اور حزب اختلاف کی بڑی سیاسی جماعتوں کے بلانے پر بھی وطن واپس نہیں آئے۔ درحقیقت میاں نواز شریف وطن واپسی کے لیے سازگار حالات اور گرین سگنل کے منتظر ہیں۔ اگر سیاسی حالات موافق نہ ہوئے اور سبز بتی بھی نہ جلی تو میاں نواز شریف ایک سے زائد الیکشن بھی لندن سے بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کی واپسی کی خبروں میں جان صرف اس لیے کہ بات چیت زیادہ ہو رہی ہے اور یہ ساری گفتگو میں بہت سے لوگ باقاعدہ منظم انداز میں سامنے آئے ہیں۔ چونکہ میاں شہباز شریف لندن جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، نون لیگ کے اندر سے میاں برادران میں بیانیے کے حوالے سے پائے جانے والے اختلافات کی وجہ پارٹی میں تقسیم بڑھ رہی تھی اور اس کی خبریں منظر عام پر آنا شروع ہو گئی تھیں ان خبروں کا اثر زائل کرنے کے لیے میاں نواز شریف کی وطن واپسی کا شوشہ چھوڑا گیا ہے اگر واقعی میاں نواز شریف وطن واپسی میں سنجیدہ ہیں تو تشریف لائیں صبح ہی لاہور پہنچیں ان کا اپنا وطن ہے۔