بھارت میں ہندوتوا کیخلاف آواز غداری سے جوڑا جا رہا ہے، فرانسیسی مصنف
نیوجرسی (نوائے وقت رپورٹ) فرانسیسی مصنف کرسٹوف جیفرلاٹ نے انکشاف کیا ہے کہ ہندو انتہا پسند قوم پرست سیلف سنسر شپ کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ بھارت میں ہندوتوا کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو ملک و قوم دشمنی اور غداری سے جوڑا جاتا ہے۔ مغربی دنیا بھارت میں دم توڑتی جمہوریت پر خاموش کیوں؟ کنگز کالج لندن میں بھارتی سیاست اور سماجیات کے پروفیسر اور فرانسیسی نژاد مصنف، کرسٹوف جیفرلاٹ نے پرنسٹن یونیورسٹی سے شائع ہونے والی اپنی حالیہ کتاب (مودی کا ہندوستان: ہندو قوم پرستی اور نسل پرستانہ جمہوریت کا ظہور) میں اس حوالے سے کئی سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ پروفیسر کرسٹوف نے اپنی کتاب میں کہا کہ حال ہی میں اقوام متحدہ میں مودی نے کھوکھلا دعویٰ کیا کہ جمہوریت نے بھارت میں جنم لیا۔ مگر کسی نے مودی سے یہ نہیں پوچھا کہ آج بھارت میں جمہوریت کا حال کیا ہے؟۔ وہاں تو جمہوریت زوال پذیر ہے!۔ سالہا سال بھارت میں کمزور ہوتی جمہوریت کو مختلف عالمی اداروں نے بھی دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ تسلیم کیا ہے۔ فرانسیسی مصنف نے لکھا کہ 2018 میں ’’ورائٹی آف ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ‘‘ نے بھارت کو لبرل ڈیموکریسی کی بجائے الیکٹورل ڈیموکریسی قرار دیا کیونکہ وہاں سول سوسائٹی اور میڈیا کی آزادی سلب کی جا رہی ہے۔ 2019 میں اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے ڈیموکریسی انڈیکس پر بھارت 10 پوائنٹ تنزلی کے بعد 51 ویں نمبر پر آگیا۔ ڈیموکریسی انڈیکس میں بھارت ایک ناکام جمہوریت کے طور پر درج ہے کیونکہ وہاں سماجی آزادیاں محدود تر ہوتی جا رہی ہیں۔ 2020 میں فریڈم ہاؤس نے بھی اپنی سالانہ رپورٹ میں بھارت کو تشویش والے ممالک میں شامل کیا۔ کتاب میں بتایا گیا کہ فریڈم انڈیکس 2020 میں جمہوریت اور انسانی آزادیوں کے حوالے سے بھارت سب سے زیادہ تنزلی کا شکار ملک ہے۔ فریڈم ہاؤس نے سکیورٹی، توہین عدالت اور غداری وغیرہ کے نام پر بننے والے کالے قوانین کے ذریعے جمہوری آوازوں کو دبائے جانے پر تشویش کا اظہار کیا۔ بھارت پریس کی آزادی کے حوالے سے بھی 9 پوائنٹس کی تنزلی کے بعد 142 ویں نمبر پر کھڑا ہے۔ بھارت میں ہندوتوا کے خلاف ہر آواز کو ملک و قوم دشمنی اور غداری سے جوڑا جاتا ہے مگر ان تمام حقائق سے مغرب نظریں چرا رہا ہے۔