بدلنا ہے تو انداز بدلو پچ بدلنے سے کیا ہو گا!!!!!
پچ خراب ہے، پچ اچھا نہیں کھیل رہی، پچ سپورٹ نہیں کر رہی، آپ یہ جملے اکثر ناکام بلے بازوں سے سنتے ہوں گے۔ وہ بلے باز جنہیں گیند نظر نہ آئے یا جنہیں سمجھ نہ آئے یا جن سے رنز نہ ہوں ان کیلئے سب سے آسان دفاع یہی ہے کہ پچ اچھا نہیں کھیل رہی۔ ان دنوں نیشنل ٹی ٹونٹی کپ کھیلا جا رہا ہے جن سے رنز نہیں ہو رہے ان کیلئے سب سے آسان، سادہ اور روایتی عذر یہی ہے کہ پچ اچھا نہیں کھیل رہی۔ ٹورنامنٹ میں ایک میچ کے دوران ورلڈکپ سکواڈ میں شامل صہیب مقصود یہ کہتے سنے گئے کہ ایسی وکٹ پر ورلڈکپ کی تیاری کروا رہے ہیں ایسے ہی رہا توساری ٹیم تبدیل کروا دیں گے۔ یہ الفاظ اس کھلاڑی کے ہیں جو برسوں سے پاکستان کی نمائندگی کر رہا ہے، ورلڈکپ سکواڈ کا حصہ ہے اور سدرن پنجاب کی قیادت بھی کر رہا ہے۔ رہا عذر پچز کے غیر معیاری ہونے کا تو ان سب سے پوچھا جائے کہ احمد شہزاد نے چالیس، حسین طلعت نے اکاون رنز، صاحبزادہ فرحان اور وسیم جونیئر نے بالترتیب چونتیس، چونتیس، بنگلزئی کے اٹھاون، بسم اللّٰہ خان کے اٹھائیس، محمد نواز کے تیس، شرجیل خان کے تینتالیس، سرفراز احمد کے ناٹ آؤٹ بیالیس، انور علی کے اکتیس، محمد عمران کے چون، حسان خان کے پچیس، خوشدل کے چوبیس، رضوان کے چونسٹھ، صاحبزادہ فرحان کے تہتر، بابر اعظم کے پینسٹھ، وہاب ریاض کے آٹھ گیندوں پر بیس، زین عباس پچیس، ذیشان اشرف چونتیس، عامر یامین تینتالیس، خرم منظور کے چوراسی، انور علی کے انتیس، فخر زمان کے چھبیس، محمد رضوان کے پینسٹھ، افتخار احمد چالیس، بابر اعظم انتیس، احمد شہزاد چوبیس اور محمد اخلاق کے باسٹھ، عماد بٹ چونتیس، اکبر الرحمان اور کاشف بھٹی کے چوبیس، چوبیس، حیدر علی کے اٹھاون اور آصف علی تینتالیس, صہیب مقصود کی نصف سنچری، بابر اعظم کی سنچری اور حیدر علی کی میچ وننگ اکانوے رنز کی اننگز ہوئی تو پچ بہت اچھا کھیل رہی تھی لیکن جب کوئی غلط شاٹ کھیل کر آؤٹ ہو، سنگل نہ نکال پائے، گیپ میں کھیلنے کی صلاحیت سے عاری ہو، شاٹ کھیلے کہیں اور جائے کہیں اور تو اس کیلئے یہ کہنا سب سے آسان ہے کہ پچ بہت خراب ہے، پچ اچھا نہیں کھیل رہی۔
یہ مقبول بات ہے عام لوگوں کو دھوکہ دینا اور یہ بات کرنا سب سے آسان ہے کہ پچ خراب ہے۔ آٹھ میچز میں چار مرتبہ ایک سو ستر سے زیادہ سکور ہوا ہے۔ ایک سو چالیس پچاس میں بھی رنز نظر آتے ہیں کیا یہ خراب پچز کی نشانی ہے۔
اگر آپ چند گیندیں کھیل نہ پائیں، سنگل، ڈبل کیساتھ سکور بورڈ کو حرکت میں رکھنے اور باؤلرز کی حکمت عملی کو ناکام کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں تو پچ کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے بلے بازوں کو اپنی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے۔ جب سارے ایک ہی انداز اور ایک ہی رفتار سے کھیلنے اور طے شدہ شاٹس کھیلنے کیلئے میدان میں آئیں اور باؤلرز زیادہ بہتر حکمت عملی کے تحت باؤلنگ کرتے ہوئے رنز بنانے سے روکتے رہیں تو یہ گیند بازوں سے کریڈٹ چھیننے والی بات ہے۔ کیا ان میچز میں ڈاٹ بالز کو دیکھا گیا ہے کہ کتنے ایسے بال ہیں جن پر کوئی رن ہی نہیں بنایا جا سکا۔ پچ کیوں اس وقت ٹھیک لگ رہی ہوتی ہے جب بابر اعظم اور محمد رضوان کھیل رہے ہوتے ہیں، باؤلر کیوں حاوی نظر آتا ہے جب صہیب مقصود، آصف علی، اعظم خان یا ایک ہی انداز سے کھیلنے والے دیگر بلے باز کھیل رہے ہوتے ہیں۔
اگر ایک پیشہ ور بلے باز خود کو حالات کے مطابق ڈھال نہیں سکتا تو پھر انہیں یہ کہہ دینا چاہیے کہ اگر ہم سے رنز کروانے ہیں تو صرف سیمنٹ وکٹ پر میچ کروائیں، کیا یہ سارے لوگ متحدہ عرب امارات میں آئی پی ایل کے میچز نہیں دیکھ رہے، کیا وہاں آزادانہ رنز بن رہے ہیں اور اگر ورلڈکپ میں بیٹنگ کیلئے مشکل پچز ملیں تو پھر ہمارے لاڈلے بلے باز وہاں کیا عذر پیش کریں گے۔ بہتر یہ ہوتا کہ اپنی ناکامیوں سے سیکھتے، خامیوں کو ٹھیک کرتے اور رنز کرتے۔ اگر پچ اتنی خراب تھی تو میچ آفیشلز نے اسے کھیلنے کیلئے موزوں کیوں قرار دیا۔ کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ کھلاڑیوں کیلئے گراونڈ سٹاف کیساتھ بھی نشستوں کا اہتمام کرے تاکہ کھلاڑیوں کو علم ہو سکے کہ اصل میں پچ کیا ہوتی ہے اچھی اور بری پچ میں کیا فرق ہوتا ہے۔
کرکٹرز شہزادے ہیں انگلینڈ میں سوئنگ باؤلنگ کھیلتے ہوئے مصیبت کا شکار ہوتے ہیں، آسٹریلیا میں اچھال والی گیندیں مسائل میں اضافہ کرتی ہیں، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ میں بھی مشکل حالات میں رنز کرنا مشکل لگتا ہے انہوں نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب انہیں راولپنڈی کی پچز بھی مشکل لگ رہی ہیں۔ اگر مسلسل رنز کرنا چاہتے ہیں تو پچز بدلنے کے بحث کے بجائے بیٹنگ کرنے کے طریقے پر غور کریں تو بہتری ممکن ہے۔ بیٹنگ میں مہارت حاصل کریں، کھیل کی سمجھ بوجھ کی طرف توجہ دیں، مقبول باتوں کے پیچھے چھپنے کے بجائے کارکردگی سے جواب دیں۔ اچھا کھیل جائیں تو شاندار بلے بازی پر داد وصول کرتے ہیں لیکن جلد آؤٹ ہو جائیں تو پچ برا کھیل رہی ہے یہ سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں ٹاس، موسم اور پچ بے قابو چیزیں ہیں، کھلاڑی ان پر قابو نہیں پا سکتے بہترین وہ ہوتے ہیں جو ٹاس، پچ اور موسم کے محتاج نہیں ہوتے۔ کیا ہمارے کھلاڑی صرف موافق حالات میں ہی رنز کر سکتے ہیں۔؟؟؟
اب اگر قذافی سٹیڈیم میں گھاس والی، اچھال والی، یا سپن پچ بنا دی گئی تو ہمارے سٹارز کیا کہیں گے؟؟؟