60 روز میں لازمی حلف کیخلاف مسلم لیک ن کی درخواست ہائیکورٹ سے مسترد
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے مسلم لیگ (ن)کی جانب سے 60 روز میں منتخب عوامی نمائندے کا حلف لازمی قرار دینے کے خلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردی اور کہا ہے کہ سیاسی معاملات میں عدالت غیر معمولی صوابدیدی اختیارات استعمال نہیں کرنا چاہتی۔ امید ہے مسلم لیگ (ن) سمیت تمام سیاسی جماعتیں تنازعات کو حل اور پارلیمنٹ کو مضبوط کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ صدارتی آرڈیننس2 ستمبر کو جاری ہوا اس کو چیلنج کیا ہے،آرڈیننس کے مطابق ساٹھ روز میں منتخب عوامی نمائندے کو حلف لینا ضروری ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ سیاسی جماعت کیوں اس میں متاثرہ فریق ہے۔ وکیل نے کہا کہ پٹیشنر پارٹی پارلیمنٹ میں ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر کوئی سیاسی جماعت متاثرہ ہو تو پارلیمنٹ میں آرڈیننس مسترد کر سکتی ہے۔ عدالت کو اس قسم کے سیاسی معاملے میں کیوں پڑنا چاہیے؟۔ آپ شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے متعلق کیس میں اس عدالت کا فیصلہ پڑھیں۔ اگر کوئی حلف نہیں لیتا منتخب ہونے کے بعد تو عوام اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیاکہ کیا سیاسی جماعت اس پوائنٹ کو سپورٹ کرتی ہے؟، جب اپوزیشن کے پاس سینٹ میں اکثریت موجود ہے تو پھر وہ اسی فورم پر جائیں۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ سینٹ میں اپوزیشن کی اکثریت موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پٹیشنر قابل احترام سیاسی جماعت ہے۔ کیا سیاسی جماعت یہ کہہ رہی ہے کہ عوام بغیر نمائندے کے ہونے چاہئیں؟۔ عدالت پارلیمنٹ کو تجویز کر رہی ہے عدالت کو نہیں پارلیمنٹ کو اپنے اختیارات استعمال کرنے چاہئیں، کیا اپوزیشن یہ کہہ رہی ہے ہماری اکثریت سینٹ میں موجود ہے لیکن ہم اس کو استعمال نہیں کر رہے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے پارلیمنٹ میں نمائندگی سے محروم رہیں؟۔ وکیل نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں ایگزیکٹو پارلیمنٹ میں خلاف قانون مداخلت سے باز رہے۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ کے 9صفحات پر مشتمل تفصیلی احکامات میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں عدالت کا اختیار استعمال کرنا مفاد عامہ میں نہیں۔ توقع ہے سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں تنازعات حل کریں گی۔ ترمیمی آرڈیننس کا مقصد ایک جمہوری اصول طے کرنا ہے۔ آرڈیننس کا مقصد ہے کہ کوئی منتخب نشست خالی نہ رہے۔ آرڈیننس کیخلاف درخواستگزار جماعت کے پاس متبادل فورم موجود ہے۔ مسلم لیگ ن کی قومی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں خاطر خواہ نمائندگی ہے۔ آرڈیننس کو آئین کے مطابق پارلیمنٹ میں آنا ہی ہوتا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں آرڈیننس کو پارلیمنٹ میں مسترد کر سکتی ہیں۔ سیاسی معاملات میں جوڈیشل برانچ کو شامل کرنا پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کی ایک وجہ ہے۔ سیاسی معاملات میں مداخلت سے عدلیہ کو بھی غیر ضروری تنازعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ توقع ہے سیاسی جماعتیں عدلیہ کو غیر ضروری تنازعات میں شامل کرنے سے گریز کریں گی۔