رمیز کسی سے خوش نہیں!!!!!
رمیز راجہ نے جب سے عہدہ سنبھالا ہے مسلسل میٹنگز کر رہے ہیں، کبھی ایک شعبہ تو کبھی دوسرا، کبھی مارکیٹنگ، کبھی، پی ایس ایل فرنچائز مالکان، کبھی کھلاڑیوں سے بات چیت، کبھی نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر سٹاف، کبھی ریجنل کوچز اور سلیکشن کمیٹی تو کبھی صوبائی ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سے مل رہے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق نئے چیئرمین پرانے لوگوں کے کام کرنے کے انداز سے خوش نہیں ہیں۔ شاید ہی کوئی میٹنگ ایسی ہو جس میں رمیز راجہ کسی سے بہت متاثر یا متاثر ہی ہوئے ہوں۔ ابھی تک ایسا نہیں ہوا جو بھی چیئرمین کے پاس جاتا ہے بس پھر اسے کچھ سنانے کا موقع نہیں ملتا۔ نئے چیئرمین کرکٹ بورڈ کے شہباز شریف بنے ہوئے ہیں۔ تقاریر میں وہ کپتان عمران خان کی طرح جذبات سے بھرپور گفتگو کرتے ہیں تو کام کی پھرتیاں ایسی ہیں کہ بورڈ ملازمین کو شہباز شریف یاد آ رہے ہیں۔ رمیز راجہ پر نظریں ہیں ان سے توقعات بھی بہت زیادہ ہیں کیونکہ وہ طویل عرصے تک صرف کرکٹ بورڈ کے فیصلوں اور پاکستان ٹیم کی کارکردگی پر مختلف حوالوں سے تنقید کرتے رہے ہیں۔ اب انہیں کچھ کر دکھانے کا موقع ملا ہے اس لیے توقعات بھی زیادہ ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان دنوں جن شعبوں کی میٹنگز ہو رہی ہیں یہ لوگ چند ماہ پہلے تک احسان مانی اور وسیم خان کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے وہ جو کہتے تھے سر جھکا کر تسلیم کرتے تھے، کہیں اپنے مخالفین کو پھنساتے تھے تو کہیں چیئرمین اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے پسندیدہ افراد کے لیے راستے بنانے کے کام کرتے تھے۔ اب ان افسران کے پاس اپنے فیصلوں کے دفاع میں کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ کچھ کوچز اور سلیکٹرز نے سہاروں کی تلاش شروع کر دی ہے۔ نئے چیئرمین کے قریبی یا اعتماد کے لوگوں کو فون کیے جا رہے ہیں۔ رمیز نئے نئے چیئرمین بنے ہیں جس طوفانی رفتار سے وہ میٹنگز کر رہے ہیں اور جس جارحانہ انداز سے گفتگو کرتے ہیں اس وقت تو انہیں کسی کی سفارش کرنے سے پہلے بھی لوگ کئی بار سوچتے ہوں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ ریجنل کوچز کی میٹنگ میں ایک ساتھی کھلاڑی نے انہیں "ریمبو" کہہ کر پکارا تو بورڈ چیئرمین نے سختی سے جواب دیا۔ اس کوچ کو یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ رمیز راجہ اب کرکٹ بورڈ کے سربراہ اور اس کے باس ہیں پھر وہ ایک اہم میٹنگ میں موجود ہیں یہ موقع نہیں تھا کہ رمیز راجہ کو ان کے پیار والے نام سے پکارا جاتا۔
وسیم خان کے مستعفی ہونے کے بعد کئی اعلی افسران کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہے چونکہ نئے چیئرمین بہت سے لوگوں سے بہت زیادہ خوش نہیں ہیں۔ اس لیے چیف آپریٹنگ آفیسر کو بھی خطرہ ہے چونکہ ان کے کئی طاقتور ہمدرد موجود ہیں اس لیے ہو سکتا ہے کہ بطورِ خاص انہیں ان کے اصل شعبے میں واپس بھجوا دیا جائے۔ ڈائریکٹر کمرشل خطرے میں ہیں، ڈائریکٹر نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر کو بھی خطرہ ہے، ڈائریکٹر ایچ آر کے لیے بھی مشکلات ہیں، ڈائریکٹر میڈیا بھی غیر محفوظ ہو سکتے ہیں، سلیکشن کمیٹی والوں کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر میں کئی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ رمیز راجہ کو ریجنز کرکٹ کی بحالی کا مشورہ دیا گیا ہے۔ وہ گراؤنڈ جنہیں احسان مانی لاوارث کر گئے تھے بورڈ دوبارہ اپنے گراؤنڈ سنبھال سکتا ہے کیونکہ نچلی سطح کی کرکٹ اچھے میدانوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اگر بورڈ گراونڈ واپس لیتا ہے تو گراونڈ سٹاف کی خدمات بھی حاصل کی جائیں گی۔ یوں وہ لوگ جنہیں احسان مانی اور وسیم خان نے فارغ کر دیا تھا وہ دوبارہ کھیل کے میدانوں میں نظر آئیں گے۔ رمیز راجہ نے بڑے اور اہم فیصلے کرنے ہیں۔ لوگوں کو نکالنا مسئلے کا حل نہیں ہوتا اصل بات بہتر لوگوں کو ذمہ داریاں دینا ہے اگر وہ اچھے لوگوں کو لگاتے ہیں تو نتائج بھی بہتر ہو سکتے ہیں۔ ان کے فیصلے غلط بھی ہو سکتے ہیں لیکن سمت کا درست ہونا ضروری ہے اگر سمت درست نہ ہو تو نظام تباہ ہو جاتا ہے۔