• news

ججز کی عدم دستیابی کے باعث تمام کیسز فوری سماعت کیلئے منظور نہیں ہو سکتے،چیف جسٹس


 لاہور (نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کا کہنا ہے کہ بینچز کی محدود تعداد اور ججز کی عدم دستیابی کے باعث تمام کیسز فوراً سماعت کے لیے منظور نہیں کیے جاسکتے۔لاہور میں پنجاب بار کونسل کی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ 'میری کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ تر کیسز کو سماعت کے لیے لگا دوں لیکن بینچز کی تعداد محدود ہے، اس میں ججز کی دستیابی کا مسئلہ بھی ہوتا ہے اس لیے ممکن نہیں ہوتا کہ اتنے سارے کیسز کو فوراً سماعت کے لیے لگادیا جائے'۔انہوں نے کہا کہ 'میرے پاس روز انہ 8 سے 10 فائلیں ا?تی ہیں جس میں  300 کیسز کی فوری سماعت کی درخواستیں موصول ہوتی ہیں، میں نے 6 سے 8 کیٹیگریز کا فارمولا بنایا ہے اس کے حساب سے فوری سماعت کی اجازت دے دیتا ہوں، 300 میں سے تقریباً 150 کیسز کی فوری سماعت ہو جاتی ہے، سول اپیلیں 2016 سے پہلی کی تمام لگا دیتا ہوں، کرمنل کیسز بھی فوراً لگا دیتا ہوں'۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بات صاف ہے کہ عدالت کے بغیر وکلا اور وکلا کے بغیر عدالت نہیں چل سکتی، کچھ ججز وکلا کی بات سننے سے پہلے سوالات شروع کر دیتے ہیں، اسی طرح ہمیں بھی وکلا سے شکایات ہوتی ہیں وہ کیس کی صحیح تیاری نہیں کرتے اور کیس کی فائل کے علاوہ بات کرتے ہیں تو عدالت کی کوشش ہوتی ہے کہ وکیل صاحب دوسری بات کرنے کے بجائے اس فائل کے متعلق بات کریں۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ کشمکش جاری رہے گی، اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے، اس سے عدالت بھی خوش رہتی ہے اور وکلا بھی، اصل بات یہ ہے کہ فیصلہ صحیح ہونا چاہیے اور عدالت کی کوشش ہوتی ہے کہ مقدمے کا صحیح فیصلہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب بار کونسل نے جو ڈرافٹ ایکٹ بنایا ہے، جو چیزیں نئے ایکٹ میں ڈالی ہیں اس میں کافی تبدیلیاں ا?چکی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ وکلا برادری کو حمایت کی ضرورت ہے، بار کونسل اور ایسوسی ایشن اس معاملے میں اچھا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وکلا کو وکالت کرنے کے لیے بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کرنا چاہیئں، اس میں وکلا کو جو بھی جائز چیزیں درکار ہیں انہیں فراہم کرنا ضروری ہیں، کورونا کے حالات کے باعث کئی وکلا کو کافی تکالیف ہوئی ہیں اور مالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، میں کسی حد تک ان چیزوں سے واقف بھی ہوں۔جسٹس گلزار احمد نے لائرز پروٹیکشن ایکٹ کے حوالے سے کہا کہ 'میں نے اس حوالے سے جو اقدامات اٹھائے ہیں ان پر متعلقہ اداروں کو سنجیدگی سے غور کرکے ان مسائل کو حل کرنا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو وکلا کو سہولیات فراہم کرنی چاہیئں'۔انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ بار کے تمام اراکین کو پلاٹ الاٹ ہو جائیں گے اور وہ لوگ اسلام آباد میں اپنا گھر تعمیر کرنے میں کامیاب ہوں گے، اس سلسلے میں بھی سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل اپنے اراکین کی مدد کر سکتی ہیں اور ان کو مدد بھی کرنا چاہیے تاکہ ان کے اراکین اپنا گھر بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔

ای پیپر-دی نیشن