چیئرمین نیب دوبارہ تعینات ہوسکے گا، کئی ادارے بیورو کی گرفت سے باہر
اسلام آباد( نمائندہ نوائے وقت)صدر مملکت نے قومی احتساب بیورو دوسرا ترمیمی آرڈیننس 2021ء جاری کردیا ہے۔ صدر مملکت عارف علوی نے قومی احتساب ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کر دیئے ہیں۔ چیئرمین نیب کی تعیناتی تک موجودہ چیئرمین کو تمام اختیارات حاصل ہوں گے۔ جب کہ نئے چیئرمین نیب کے لیے پرانے چیئرمین بھی امیدوار ہو سکتے ہیں۔ آرڈیننس کے مطابق صدر مملکت متعلقہ چیف جسٹس کی مشاورت سے احتساب عدالتوں کے ججز کا تقرر کریں گے۔ صدر مملکت جتنی چاہیں گے احتساب عدالتیں قائم کرسکیں گے۔ احتساب عدالتوں کے لیے ججز کا تقرر تین سال کے لیے ہوگا۔ صدر مملکت چیئرمین نیب کا تقر وزیر اعظم، اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کریں گے۔ صدر مملکت اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں چیئرمین نیب کی تقرری کا معاملہ 12رکنی پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائیں گے۔ چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال کو نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی تک توسیع دے دی گئی ہے۔ یوں نئے چیئرمین کی تقرری تک موجودہ چیئرمین نیب کام جاری رکھیں گے۔ نئے چیئرمین نیب کی مدت ملازمت چار سال ہوگی۔ آرڈیننس میں چیئرمین نیب کیلئے ناقابل توسیع لفظ ختم کر دیا گیا۔ چار سال مکمل ہونے کے بعد اگلے چار سال کے لیے بھی تعینات کیا جاسکے گا۔ دوبارہ تعیناتی کے لیے یہی طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔ چیئرمین نیب کو سپریم کورٹ کے ججز کی طرح ہٹایا جاسکے گا۔ چیئرمین نیب اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوا سکیں گے۔ نیب قانون کا اطلاق وفاق، صوبائی اور مقامی ٹیکسیشن کے معاملات پر نہیں ہوگا۔ ٹیکس سے متعلقہ معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیئے گئے ہیں۔ چیئرمین نیب کو آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ نئے آرڈیننس کے مسودے میں بتایا گیا ہے کہ چیئرمین نیب کے پاس گرفتاری کا اختیار ہوگا۔ جب کہ چیئرمین نیب کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشل کونسل سنے گی۔ اس سے قبل وفاقی کابینہ نے نیب ترمیمی آرڈیننس 2021 ء کی منظوری دے دی۔ کابینہ نے سرکولیشن سمری کے ذریعے نیب ترمیمی آرڈیننس کی منظوری دی۔ منظوری کے بعد نیب آرڈیننس کا مسودہ صدر مملکت کو ارسال کر دیا تھا۔ صدر مملکت کے دستخط کے بعد نیب ترمیمی آرڈیننس کا اطلاق ہو گیا ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے نیب آرڈیننس میں ترمیم کے مسودے کی منظوری دی تھی۔ وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں قانونی ٹیم کا اجلاس ہوا۔ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری، وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر، مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان شریک ہوئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان چیئرمین نیب کی تقرری کے لئے شہباز شریف سے مشاورت نہیں کریں گے۔ ہمارا واضح موقف ہے اپوزیشن سے تو مشاورت ہوگی تاہم شہباز شریف سے نہیں۔ اگر اپوزیشن کو شوق ہے لیڈر آف اپوزیشن سے مشاورت ہو تو اسے اپنا اپوزیشن لیڈر بدل لینا چاہئے۔ شہباز شریف نیب کے ملزم ہیں، ان سے مشاورت کا مطالبہ ایسا ہی ہے جیسے چور سے پوچھا جائے کہ اس کا تھانیدار کون ہوگا۔ ہمارا مقصد نیب مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔ ہم آرڈیننس پر اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار قبل ازیں آرڈیننس کے اجراء سے پہلے پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ نئے چیئرمین نیب کی تقرری تک موجودہ چیئرمین کام کرتے رہیں گے۔ فواہد چوہدری نے کہا کہ ہمارا مقصد نیب مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔ ہم پارلیمنٹ ایکٹ کے تحت ریفارمز لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نیب بڑی کرپشن کے لئے بنا تھا، اس میں کاروبار اور دیگر چیزوں کو شامل کرنے سے نیب کا معیار گرا ہے، ہم نیب کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن کو لیڈر آف اپوزیشن سے مشاورت کرانے کا شوق ہے تو اسے اپنا اپوزیشن لیڈر بدل لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ ہم چوروں سے پوچھ کر تھانیدار لگائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن لیڈر میں تھوڑی بہت بھی حیا ہوتی تو وہ خود ہی اپوزیشن لیڈر کے عہدہ سے ہٹ جاتے۔ ایک شخص جو نیب میں ملزم ہو اور وہ خود بضد ہو کہ چیئرمین نیب کی تقرری پر اس سے مشاورت کی جائے، غیر مناسب ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں کی تعداد بھی بڑھائی جا رہی ہے، ان کا طریقہ کار تبدیل کر کے انہیں مضبوط کیا جائے گا۔ پراسیکیوشن کی مضبوطی کے لئے پراسیکیوٹر جنرل کے آفس کو بھی مضبوط کیا گیا ہے، اب پراسیکیوٹر جنرل جو ریفرنس فائل کریں گے وہ ذمہ دار ہوں گے کہ اس میں سزا بھی ہو۔ انہوں نے کہا کہ وزارت قانون نے پہلی مرتبہ ایف بی آر کو گرفتاری کا اختیار دیا ہے۔ وفاقی وزیرقانون فروغ نسیم نے کہاکہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے بعد صدر پاکستان چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) تعینات کریں گے۔ نئے چیئرمین نیب کی تقرری تک موجودہ چیئرمین کام کرتے رہیں گے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ ریٹائرڈ جج یا ڈسٹرکٹ جج احتساب عدالت میں تعینات ہوسکے گا۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ سے مشاورت ہوگی۔مزیں براں آرڈیننس کے مطابق نیب ملزم کو کرپشن کی رقم کے مساوی زرضمانت جمع کرانے پر ضمانت مل سکے گی۔ احتساب عدالت روزانہ کی بنیاد پر سماعت کر کے کیس نمٹائے گی۔ چیئرمین نیب پراسیکیوٹر جنرل کی مشاورت سے ریفرنس دائر کریں گے۔ احتساب عدالت کو شہادت ریکارڈ کرنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کی اجازت ہو گی۔ دریں اثناء آرڈیننس کے مطابق قواعد کی بے ضابطگی کے حوالے سے عوامی یا حکومتی منصوبے بھی نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں گے۔ نئے آرڈیننس میں فیصلہ سازی کے اہم ادارے مشترکہ مفادات کونسل، اقتصادی رابطہ کمیٹی (این ای سی)، قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی)، ایکنک اور دیگر ادارے نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کر دیئے گئے۔ نئے آرڈیننس کے تحت وفاقی، صوبائی اور مقامی ٹیکسیشن کے معاملات، وفاقی اور صوبائی کابینہ، کمیٹیوں اور ذیلی کمیٹیوں کے فیصلے، عوامی یا حکومتی منصوبے بھی نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں گے۔ آرڈیننس کے مطابق کسی مالیاتی ادارے یا بینک کے فیصلے کے خلاف کارروائی یا تحقیقات گورنر سٹیٹ بینک کی منظوری کے بغیر نہیں کی جا سکے گی۔