دین کی خدمت اور تلخیص البیان!!!!!
موجودہ دور میں لکھنے والے اپنے اپنے انداز میں پاکستان کے مسائل پر لکھتے اور گفتگو کرتے ہیں۔ معاشرتی مسائل پر بھی گفتگو رہتی ہے۔ ہر کسی کا اپنا نقطہ نظر ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تمام مسائل کی جڑ مذہبی تعلیمات سے دوری ہے۔ بنیادی طور پر ہم روز مرہ کے معاملات میں مذہب کو نظر انداز کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں پھر مسائل ایسے بڑھتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نئی نئی شاخیں قائم کرنے کے باوجود مسائل کم نہیں ہو رہے۔ بدقسمتی ہے کہ ہم تمام تر کوششوں کے باوجود ناکام ہیں لیکن ابھی تک مرض کی تشخیص نہیں کر سکے۔ مجھے یقین ہے جب تک ہم بنیاد پر واپس نہیں آئیں گے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں اخلاقی طور پر مضبوط ہونے کی ضرورت ہے اور اخلاق تب بلند ہو گا جب ہم اسلامی تعلیمات کو روز مرہ کے معمولات کا حصہ بنائیں گے۔ میرا خیال ہے اس سلسلہ میں مذہبی شخصیات اہم کردار ادا کر سکتی ہیں اگر وہ مسلکی اختلافات سے نکل کر متحد ہوں اور قوم کی اخلاقی تعمیر کے لیے اپنا کردار ادا کریں یہ دین کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔ جتنا زور مختلف مذہبی شخصیات اپنے اپنے مسلک کے لئے لگاتی ہیں اس سے کہیں کم اس پہلو پر لگایا جائے تو بہتری کی امید ہے۔ مسلکی اختلافات کی وجہ سے تقسیم تو ہوئی ہے اور عوامی سطح پر اس کا گہرا اثر نظر آتا ہے۔ مذہبی رہنماؤں کو اس پہلو پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ہر شخص کو اس طرح ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہوئے منہ موڑے رکھنا چاہیے۔ دشمن تو مسلک نہیں مذہب کو نشانہ بنا رہا ہے اور ہم کسی اور طرف لگے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے ایک نشست دینی اساتذہ کرام کے ساتھ ہوئی۔
مولانا محمد زاہد انور، قاری محمد قاسم بلوچ، پروفیسر ڈاکٹر ظفر اللہ شفیق، حافظ اسد رفیق اور ڈاکٹر خالد شریک تھے۔ اساتذہ کرام نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ میرا سوال یہی تھا کہ کیا ہمیں آج بھی مسلکی اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور رہیں گے۔ مولانا محمد زاہد انور کی تلخیص البیان فی فہم القران اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ مولانا نے یہاں اخلاقی مسائل پر خاصی محنت کی ہے۔ قرآن مجید کی فہم اور تفہیم کی طرف ایک انوکھا،منفرداور انقلابی قدم ہے۔ مولانا محمد زاہد انور مہتمم جامعہ عثمانیہ شورکوٹ سٹی ہیں۔ ترجمہ قرآن عزیز از :امام الاولیا ء حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس سرہ(جو مولانا انور شاہ کشمیریؒ،حضرت اقدس مدنیؒ،حضرت مفتی کفایت اللہ،مولانا سید سلیمان ندوی اوردیگر اکابر کا تصدیق شدہ اور پسند فرمودہ ہے) ہرآیت کا جدا گانہ مختصر ترین اور آسان فہم "خلاصہ مفہوم آیات " (بمطابق آیت نمبر)(آپ جس آیت کا مطلب جاننا چاہتے ہیںاسی آیت نمبر کے نیچے ترجمہ پڑھیں اور حاشیہ پر اس کا عام فہم مفہوم بھی ملاحظہ کریں جس سے قرآن مجید کا سمجھنا آسان ہو جائے گا)، انشااللہ، اہم تفسیر ی مقامات کی مستقل وضاحت جو 101منتخب مضامین ِ قرآن پر مشتمل ہے (بحوالہ آیت نمبر،سورہ،پارہ نمبر دی گئی ہے)
آسان فہم اہم علمی معلومات کے ساتھ عصری تقاضوں کے مطابق 80سے زیادہ اہم عنوانات کا انتخاب جس کو جاننا ہر دور کے علماء و طلبا (مع فاضلات وطالبات)کے لئے از حد ضروری ہے۔
حضرت لاہوری کے نشاندہی کردہ مضامین قرآن جن کی تعداد 170 سے زائد ہے کے ساتھ مزید 275سے زائد عنوانات کی نشاندہی،(بحوالہ آیت نمبر،سورہ،پارہ نمبر)جو ہر عالم و فاضل(مع عالمات و طالبات)کیلئے انمول و قیمتی معلوماتی خزانہ ہے۔ بعد از اختتام قرآن مجید 15انتہائی اہم معلوماتی مضامین(جن میں مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود ؒ کے منتخب اہم تفسیری نکات بعنوا ن "تحقیق محمود از افادات محمود ۔ نیز امام الحکمت حضرت شاہ ولی اللہ کافہم دین کے حوالے سے نقطہ نظراور فکر محمود (جیسے اہم عنوانات)بھی شامل اشاعت ہیں۔یہ سب علمی و معلوماتی خزانہ فقط ایک ہی جلد میں ہے (جو 1230صفحات پر مشتمل ہے)
مولانا زاہد کہتے ہیں کہ ہمیں مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دین کی خدمت کے لیے متحد ہو جانا چاہیے۔ اپنے اپنے مسلک کے ساتھ چلتے ہوئے بھی دین کی خدمت ہوتی ہے لیکن بعض جگہ ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے مسلک پر شدت کا مظاہرہ کرتے ہیں جس وجہ سے اتحاد کو نقصان پہنچتا ہے۔ علماء کی سطح پر پایا جانے والا اختلاف عوامی سطح پر شدت اختیار کرتا ہے۔ ہمیں اخلاقی معاملات اور روز مرہ کے کاموں میں اسلام کے بنیادی اصولوں کو اپنانے کے حوالے سے کام کرنا چاہیے۔
قاری محمد قاسم بلوچ نے کہا کہ ہمیں اپنے مدارس کو جدید بنانے کے لئے کام کرنا ہے۔ مدارس میں طلباء کی اخلاقی تربیت پر زور دینے کی ضرورت ہے یہ اس وقت ممکن ہو گا جب طلباء اپنے بڑوں کو دیکھتے ہیں انہیں وہاں وہ چیزیں نظر نہیں آتیں یا ان پر اسلام کی حقیقی روح پر عمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ علماء کو بھی تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ربیع الاوّل کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ ہمیں نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرتے ہوئے اخلاقی طور پر مضبوط ہونے کا عہد کرنا ہے۔ بنیادی عقائد یعنی اللّہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ نبی کریم ؐ اللہ کے آخری رسول، خاتم النبیین ہیں۔ اس کے بعد ہمیں اسلام کی تعلیمات کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کے لئے کام کرنا ہے۔ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں لیکن کبھی مسلک پر اتنی شدت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کہ دین کی حقیقی روح سے تصادم نظر آنا شروع ہو جائے۔ ہمیں دین کی خدمت کے لئے متحد ہونا ہے۔ سب اپنی جگہ دین کی خدمت ہی کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اصلاح کی گنجائش تو موجود ہے۔ اگر ہم اپنے کام کرنے کے انداز پر نظر ثانی کریں تو یقیناً بہتری ہو سکتی ہے۔