• news
  • image

برانڈز اور پروٹوکول کا خمار

انسانی زندگی میں کامیابیوں ناکامیوں کیلئے قسمت کو اہم مانا جاتا ہے وہاں انسان کے اپنے کردار وا فعال بھی اتنے ہی ذمہ دار ہوتے ہیںاس لئے کہا جاتا ہے انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے اب یہ اس پر ،منحصر ہے کہ وہ اپنی زندگی کے گھوڑے کو ہموار راستے پر ڈالے یاپھردشوار گذاریا الجھے ہوئے راستوں کا انتخاب کرے، آج کی نفسا نفسی کی دوڑ میں اس چیز کا شدت سے اداراک ہوتا ہے کہ انسان خود اپنی الجھنوں اور مشکلات کا ذمہ دار ہے مشہور چینی فلاسفر کنگ فزی کا مقولہ ہے کہ’’ زندگی حقیقی طور پر بہت سادہ ہے لیکن ہم انسان اسے پیچیدہ بنانے پر مجبور کرتے ہیں‘‘ بزرگ کہا کرتے تھے کی سادہ زندگی کا کوئی جوڑ نہیں یعنی کہ اس کا کوئی متبادل نہیں کہیں بھی زندگی کا کوئی بھی پہلو ہو جہاں سادگی موجود ہو گی وہاں پریشانیاں ،مسائل اور الجھنیں بھی کم ہوں گی سادہ خوراک لینے والے کی صحت چسکے دار کھانا کھانے والوں کی نسبت بہت بہتر ہو گی سادہ طرز زندگی میں سادہ لباس پہننے والا ظاہری نمود نمائش اور بھاری بجٹ کے بوجھ سے بھی عاری ہو گا دور حاضر میں انسانی رویوں اورجحانات میں عالمگریت کا پہلو نمایا ں ہو چکا ہے لباس ہو یا خوراک لوگ سادگی سے منہ موڑ چکے ہیں کھانا ہو یا پھر پہناوا دکھاوے کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھر چکا ہے اور اس کی بنیادی وجہ لوگوں میں بڑھتا ہوا برانڈ کا کمپلیکس ہے بڑے بوڑھے یا ادھیڑ عمر افراد تو اپنی زندگیاں تو گذار چکے لیکن برانڈ کی دوڑ میں نوجوان نسل بالخصوص بری طرح سے اسکا شکار ہو چکی ہے جوتا ہو تو برانڈ کا کپڑا ہو توبرانڈ کا موبائل ہو تو برانڈ کا گاڑی ہو تو برانڈ کی آپ یوں کہہ لیجئے جنس کی تخصیص کے بغیر پوری دنیا کی نسل اس احساس برتری کی لت میں پڑ چکی اور پاکستان کی نوجوان نسل اس ضمن میں کسی سے پیچھے نہیں اور یقینی طور پر اسکے نتائج معاشرہ کے انفرادی سکون کے ساتھ ساتھ اجتماعی چین کو بھی غارت کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑ رکھی ہے اپنی مالی حیثیت کی پرواہ کئے بغیرمادیت کی مصنوعی دوڑمیں اپنے وسائل کے برعکس اپنے آپکوعارضی اور جھوٹی برتری دینے کی خاطر بہت سے افراد اپنے سب کچھ دائو پر لگانے سے بھی نہیں کتراتے احساس کمتری سے احساس برتری کی اس ریس میںسفید پوش اور لوئر مڈل کلاس طبقہ اپنے بجٹ اور انسانی صحت خراب کرنے کا خود ذمہ دار ہے آجکل آپ کی گھڑی،جوتا ،لباس، خوراک۔ موبائل حتیٰ کہ رہائشی سکمیں بھی برانڈ کی ہونگی تو آپ معاشرہ کے خود ساختہ اور مصنوعی معیار کے اعلیٰ پنوں پرقرارپائیں گے برانڈ کی لاگت اور بوجھ صاحب دسترس کے بجٹ کیلئے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی لیکن ان گھرانوں کیلئے مستقل خطرہ ہے جہاں دو وقت کا کھانا بھی صیح طرح سے میسر نہیں ۔ دین اسلام سادگی کا دین ہے آسان اور سکھ کی زندگی کا سر چشمہ ہے۔لیکن ساتھ ساتھ فضول خرچی کرنیوالے کو شیطان سے تشبیہ دی گئی ہے اس میں کوئی شک نہیں کے برانڈ کی اس دوڑ میں تاجر اور کاروبار کو تو تقویت ملتی ہے لیکن معاشرہ خلفشار میں پھنس جاتا ہے دنیا کا کوئی بھی ترقی یافتہ ملک یا پھرکسی ریاست کی ترقی یافتہ عوام ہی کیوں نہ ہو برانڈ کا لگائو کے حوالے چیلنج تقریبا سب کے ایک جیسے ہی ہیں لیکن یہ فرد کا انفرادی معاملہ اگر و ہ جتنی جادر اتنے پائوں پھلانے والے سنہری اصولوں پر کاربند ہو جاتا ہے تو خوشحالی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے خوراک چونکہ اتنی مہنگی نہیں ہوتی برانڈ کے کھانے میں فاسٹ فوڈ دیگر مما ملک کی طرح تیزی سے پھیل چکا ہے جبکہ ترقی یافتہ اقوام اس کا مزہ اور نتیجہ چکھنے کے بعد اصل کی طرف لوٹ رہی ہیں پاکستانی ٹیم کے سابقہ نیوٹریشن نے انکشاف کیا امریکہ میں ملازمت کے دوران انہیں پتہ چلا کہ امریکہ جیسے ملک میں بھی نیوٹریشن اور ڈاکٹر خوراک کے حوالے سے اصل کی طرف ہی پلٹ رہے ہیں اور یہ باور کروایا جا رہا کہ انکی بڑھی بوڑھیاں جیسی خوراک استعمال کرتی تھیں آج کی نسل کو بھی وہی غذائیں لینی چاہیں اور یہی خوراک تندرست صحت کی علامت ہے ۔
 لیکن ہمارے ہاں باوا آدم ہی نرالہ ہے قرضوں سے چلنے والے ملک میں سالانہ پروٹوکول بجٹ ایسے شاہانہ انداز میںمقرر کیا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ اور امیر قومیں بھی انگشت بدنداں ہو جایئں موجودہ حکومت کے مشہور سیاسی سلوگن میںپروٹوکول کا خاتمہ اور سادگی کا شعائر اپنانا اہم ترین منشورتھے لیکن حکومت سنبھالتے ہی وہی روائتی اور دقیانوسی طرزحکمرانی نے عوام کو مایوس کیا وہی مشیروں اور وزیروں کی فوج ظفر موج وہی ٹھاٹھ باٹھ بلکہ گذشتہ حکومتوں کی نسبت پروٹوکول بجٹ کے مصارف میں تجاوز او ر ہو شربا مہنگائی میں اس پر ہٹ دھرمی سے قائم رہنا افسوس سے کم نہیں  ان تمام تناظر میںپرٹوکول ہو یا برانڈ ایک چیز طے ہے کہ متمول طبقہ ہو یامتمول گھرانا ترجیحات کی پرواہ کئے بغیر ان تمام چیلنجز اور مسائل سے نبٹنے کیلئے انفرادیت سے اجتماعیت تک سب کو بجٹ کے مطابق اور اپنی حیثیت کے مطابق پاوں پسارنے چاہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن