• news
  • image

"مڈل مین"، سبحان احمد کو کھانا کھلانے والا افسر اور ممکنہ تبدیلیاں!!!

ہر نئے چیئرمین کے آتے ہی کرسیاں ہلنا شروع ہوتی ہیں، کچھ کی کرسیاں بدل جاتی ہیں، کہیں چہرے بدل جاتے ہیں تو کہیں طاقتور ایک مرتبہ پھر دور کھڑے مسکرا رہے ہوتے ہیں۔ یہ طاقتور ہر دور میں مضبوط دفاع کی بدولت محفوظ ہی نظر آتے ہیں۔ ان کی کارکردگی پر کوئی نظر نہیں ڈالتا بلکہ یہ جس پر بھی نظر ڈالتے ہیں اس کا ستیا ناس ہونے میں کچھ دیر نہیں لگتی۔ اب رمیز راجہ آئے ہیں ان کی آمد کیساتھ ہی استعفوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ کچھ بڑے افسر گھروں کو لوٹ چکے ہیں کچھ مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ رمیز راجہ اپنی ٹیم بنانے کا واضح پیغام دے چکے ہیں۔ کچھ تبدیلیاں آ چکی ہیں اور کچھ تبدیلیاں آنے والے دنوں میں نظر آئیں گی۔ احسان مانی اور وسیم خان کے دور میں کرکٹ بورڈ کو سیاسی دفتر بنا دیا گیا تھا گوکہ وسیم خان کے معترف آج بھی موجود ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کے کریڈٹ پر ایسا کچھ نہیں کہ خوشیاں منائی جا سکیں یا انہیں یاد کیا جا سکے۔ ان کا سب سے بڑا منصوبہ چھ ٹیموں کا فارمولا تھا اور یہ تیسرا سال ہے کہ چھ ٹیموں کیلئے بھی سپانسرز کا حصول ممکن نہیں بنایا جا سکا۔ بہتر ہوتا کہ وسیم خان اس حوالے سے کچھ بتاتے تاکہ ان کے مداحوں کیلئے دفاع کرنا ذرا آسان رہتا۔ وہ اس حد تک آمرانہ سوچ کے حامل تھے کہ پاکستان کے بڑے پریس کلبوں نے ان کے خلاف مذمتی قراردادیں منظور کی تھیں۔ چھ ٹیموں کی سپانسر شپ کیلئے سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ اس اہم ترین کام کو "مڈل مین" کے سپرد کر رکھا تھا پھر بھی کہتے رہے کہ ہم بہت بڑے پروفیشنل ہیں۔
باخبر دوستوں کا بتانا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے صوبائی ٹیموں کی سپانسر شپ کیلئے "مڈل مین" کا کرداد ختم کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ احسان مانی اور وسیم خان کے دور میں صوبائی ٹیموں کی سپانسر شپ کیلئے براہ راست معاملات طے کرنے کے بجائے تیسری پارٹی کے ذریعے سپانسرز کیساتھ بات چیت کی جاتی تھی لیکن تبدیلی کے بعد یہ طریقہ کار تبدیل کرنے پر بات چیت ہو رہی ہے۔ نئے چیئرمین رمیز راجہ اس پریکٹس کے حق میں نہیں ہیں۔ ایک بات تو یہ ہے کہ ایجنٹس کے ذریعے سپانسرز کے حوالے سے مطلوبہ ہدف حاصل نہیں ہو سکا جبکہ اس دوران شفافیت پر بھی شکوک و شبہات رہے ہیں۔ ایجنٹس یا مڈل مین کے تجربے کی ناکامی کے بعد پی سی بی اب براہ راست سپانسرز سے بات چیت کرے گا۔ محکمہ جاتی کرکٹ کے خاتمے کے بعد چھ ٹیموں کے نظام میں سپانسرز کا کردار نہایت اہم ہو چکا ہے۔ اب تمام اخراجات پاکستان کرکٹ بورڈ برداشت کرتا ہے جبکہ ماضی میں محکمہ جاتی ٹیموں کی موجودگی میں کرکٹ بورڈ پر مالی بوجھ کم پڑتا تھا لیکن چھ ٹیموں کی کرکٹ شروع ہونے کے بعد سو فیصد اخراجات پی سی بی کو اٹھانا پڑتے ہیں ان حالات میں سپانسرز کے نہ ہونے سے خزانے پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ صوبائی ٹیموں کی سپانسر شپ کیلئے "مڈل مین" اپنا کردار بہتر انداز میں ادا نہیں کر سکے۔ اس وقت بھی نیشنل ٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ کے مقابلے جاری ہیں۔ پاکستان کے بہترین کرکٹرز مختلف ٹیموں کی طرف سے ایکشن میں ہیں لیکن اس کے باوجود صرف تین ٹیمیں سپانسرز کیساتھ ٹورنامنٹ میں حصہ لے رہی ہیں۔ سنٹرل پنجاب، سدرن پنجاب اور سندھ کی ٹیموں کے پاس سپانسرز ہیں جبکہ ناردرن، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی ٹیمیں سپانسرز کے بغیر ایونٹ میں شریک ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین رمیز راجہ کرکٹ بورڈ کے ذرائع آمدن بڑھانے کیلئے کوشاں ہیں اس سلسلے میں وہ مختلف کاروباری شخصیات سے بھی مل رہے ہیں۔ 
ابھی ایک دوست کا فون آیا ہے کہ کرکٹ بورڈ کے ایک اعلیٰ افسر ہر دوسرے دن بورڈ کے سابق سی او او سبحان احمد کو فون کر کے ان کی دستیابی کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس افسر نے ایک مرتبہ سبحان احمد کو کھانے پر بلایا اور اس وقت کے چیف آپریٹنگ آفیسر کو بتائے بغیر اپنے اہلخانہ کو بھی ساتھ لے آئے تو سبحان احمد نے ناراضی کا اظہار کیا لیکن جب سبحان احمد کرکٹ بورڈ چھوڑ گئے تو اس افسر سمیت ان کے قریبی افراد نے برسوں کی رفاقت کو بھلا کر احسان مانی اور وسیم خان کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کام شروع کر دیا۔ اب وقت بدلا ہے ان لوگوں نے دوبارہ سبحان احمد کو فون کرنے شروع کر دیے کہ "باس" واپس نہ آ جائے۔ انہیں خبر ہو کہ وہ معذرت کر چکے ہیں۔ میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے رضا راشد کافی دنوں سے بیمار ہیں آپ سے ان کی صحتیابی اور میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے سید نذیر احمد کا نکاح ہوا ہے ان کی خوشگوار ازدواجی زندگی کیلئے بھی دعاؤں کی درخواست ہے۔ ویسے سید نذیر احمد کے گھر کیساتھ ایسے لوگ رہتے ہیں جو ہر وقت ان کیلئے دعائیں کرتے ہیں۔ انگلینڈ نے اپنے کھلاڑیوں کی ذہنی صحت کا بہانہ بنا کر پاکستان کا دورہ ختم کر دیا تھا، دیکھنا یہ ہے کہ کہیں میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں کے ذہنوں پر غیر ضروری دباؤ تو نہیں ہے۔ ان کی ذہنی صحت کسی بھی طور انگلینڈ کے کرکٹرز سے کم اہمیت نہیں ہے۔
یاد رکھیے نیشنل ٹی ٹونٹی کرکٹ ٹورنامنٹ کے بعد بھی کچھ اہم فیصلے متوقع ہیں۔ آنے والے دن اس سطح کی کرکٹ سے جڑے لوگوں کیلئے خاصے اہم ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن