الوداع محسن پاکستان الوداع!!!!
پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہو چکا ہے، طاقتور سے طاقتور دشمن بھی میلی آنکھ سے پاکستان کی طرف نہیں دیکھ سکتا، ایٹمی طاقت حاصل کرنے کے بعد اب ہمیں کسی قریب یا دور کے دشمن سے کوئی خطرہ نہیں ہے، ہم نے وطن عزیز کی سرحدوں کو محفوظ بنا دیا ہے، اب ہماری آنے والی نسلوں کی آزادی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ ایٹمی صلاحیت، یہ ایٹم بم دنیا کو ڈرانے کے لیے ہرگز نہیں ہے۔ اس ایٹمی طاقت سے ہم امن کے راستے پر چلیں گے۔ ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کا مطلب دنیا کو تباہ کرنا نہیں ہے بلکہ یہ طاقت رکھنے کا مطلب اپنے دشمنوں کو خبردار کرنا ہے۔ وہ دشمن جو ہم پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں، ہم پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، ہمیں غلام بنانا چاہتے ہیں، ہماری آزادی کو سلب کرنا چاہتے ہیں، ہمیں ترقی سے روکنا چاہتے ہیں، ہماری خودمختاری کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایٹمی طاقت پاکستان کے ان دشمنوں کے لیے پیغام ہے کہ ہم امن دوست ہیں۔ ہم امن کے سفیر ہیں۔ ہمارا راستہ مت روکیں، ہمارے لیے مشکلات کھڑی نہ کریں۔ ہم جنگ کی طاقت رکھتے ہیں لیکن ہم کسی کے ساتھ غیر ضروری جنگ نہیں چاہتے۔ آپ اپنے ملکوں کے لیے کام کریں ہمیں اپنے ملک اور اپنے شہریوں کی خدمت کرنے دیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بول رہے تھے اور میں سن رہا تھا۔ کیا لہجہ تھا، ایک فاتح کا لہجہ لیکن عاجزی تھی انکساری تھی، کہیں غرور و تکبر نہیں تھا، کہیں دنیا کو تباہ کرنے کا جذبہ نہیں تھا بلکہ ایٹمی طاقت بننے کے بعد دنیا کو امن کا پیغام دینے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نہایت صاف اور سادہ الفاظ میں اپنا نقطہ نظر بیان کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے یہ سب کچھ ہم نے اپنے ملک کے لیے کیا ہے، یہ ہم نے اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو تازہ رکھنے اور اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ پاکستان دینے کے لیے کیا ہے۔ یہ ملک ہمارا مان ہے، فخر ہے، ہم اس ملک کے بغیر کچھ نہیں ہیں۔ یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر اے کیو خان کی آواز بھرا گئی، ان کی آنکھوں میں آنسو تھے وہ کہہ رہے تھے ہم نے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا ہے۔ اب ہمیں اس حوالے سے کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔ اب ہمیں مل کر دیگر مسائل کو حل کرنا ہے۔ ڈاکٹر اے کیو خان جذبات میں بول رہے تھے اور میں یہ سن رہا تھا۔
آنکھوں میں چمک، چہرے پر اطمینان، آواز میں اعتماد، گفتگو میں ایمانی قوت، پرامن اور ترقی یافتہ پاکستان دیکھنے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان انیس سو اٹھانوے میں ایٹمی دھماکوں کے چند روز بعد جب لاہور کے ایک گیسٹ ہاؤس میں اپنے مشاہدات بیان کر رہے تھے، خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ یہاں میرے ساتھ چھ سات اور لوگ تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا۔ ایٹمی دھماکوں کے فوری بعد محسن پاکستان کے ساتھ لاہور میں یہ ملاقات میری زندگی کے یادگار ترین لمحات میں سے ہے۔ گزشتہ روز ڈاکٹر اے کیو خان کا انتقال ہوا ہے اور جس طرح انہوں نے گذشتہ بیس برس گذارے ہیں انہیں یاد کرتے ہوئے میری آنکھوں میں ایک مرتبہ پھر وہ منظر گھوم رہا ہے جب ڈاکٹر صاحب ایٹمی دھماکوں کے بعد لاہور آئے تھے اور مجھے ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ جب ان کے انتقال کی خبر سنی ہے شدید تکلیف محسوس کر رہا ہوں کیونکہ ایک ایک کر کے اس ملک کے خیر خواہ، اس ملک کے لیے تن، من، دھن قربان کرنے والے رخصت ہو رہے ہیں۔ ایسی شخصیات جن کی زندگی میں پاکستان، پاکستان اور صرف پاکستان تھا وہ اپنا کام کر کے اپنی ذمہ داریاں نبھا کر رخصت ہو رہی ہیں اور ہمیں ان کا کوئی متبادل نظر نہیں آ رہا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صرف ایک سائنس دان ہی نہیں تھے وہ ایک سچے پکے پاکستانی تھے۔ جن کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کی خدمت تھا۔ وہ زندگی بھر ملک و قوم کی خدمت کرتے رہے اور اسی سفر میں خالق کائنات کے حضور پیش ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان سابق صدر غلام اسحاق خان کی بہت قدر کرتے تھے وہ انہیں تمام حکمرانوں سے بہتر اور محب وطن سمجھتے تھے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے سفر میں وہ بریگیڈیئر انعام الحق کی بہت تعریف کرتے تھے۔ بریگیڈیئر صاحب کے بارے کہا کرتے تھے کہ انعام الحق اپنی جان پر کھیل کر ملک و قوم کی خدمت کرتے رہے ہیں۔ بریگیڈیئر انعام الحق جرمنی میں گرفتار ہوئے اور امریکہ بھجوا دیے گئے ان پر ایٹمی ٹیکنالوجی کے حوالے سے معلومات اور تکنیکی چیزوں پر کام کرنے کا الزام تھا۔ اس وقت کے صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے بریگیڈیئر انعام الحق کے مقدمے کے لیے ان کے کے بیٹے نعیم الحق کی ہر طرح سے مدد کی۔ انہیں قانونی و مالی معاونت فراہم کی، بہترین وکلاء کی خدمات حاصل کرنے میں مدد دی نتیجہ یہ نکلا کہ بریگیڈیئر انعام الحق امریکی عدالتوں سے باعزت بری ہوئے۔ ڈاکٹر اے کیو خان انعام الحق کی خدمات کے ہمیشہ معترف رہے۔
میری انیس سو چھیانوے، ستانوے اور اٹھانوے میں ڈاکٹر صاحب سے ہونے والی ملاقاتوں کا نچوڑ صرف پاکستان اور پاکستان تھا۔ وہ اکثر ذکر کرتے تھے کہ ایٹمی صلاحیت امن کے نئے سفر کا آغاز ہے۔ اس دور میں ڈاکٹر اے کیو خان کی سیکیورٹی کسی بھی صدر، وزیراعظم یا آرمی چیف سے کم نہیں ہوتی تھی۔ وقت گذرتا گیا، وقت بدلتا بھی گیا۔ شاید ڈیڑھ سال بعد ایک مارشل لاء لگا اور جنرل پرویز مشرف پاکستان کے حکمران بنے، نائن الیون اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں ڈاکٹر صاحب کی مشکلات میں اضافہ ہونے لگا۔ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو خوف تھا کہ ڈاکٹر اے کیو خان پاکستان سے ایٹمی ٹیکنالوجی کی منتقلی کا سبب بن سکتے ہیں اور ایٹمی ٹیکنالوجی سے عالمی امن کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اسے محض اتفاق کہیں یا میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے میر ظفر اللّہ خان جمالی کے ساتھ بھی کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ جنرل حمید گل، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور میر ظفر اللہ خان جمالی کے ساتھ میرا ذاتی اور قریبی تعلق تھا۔ ان تینوں شخصیات کی زندگی پاکستان سے شروع ہو کر پاکستان پر ختم ہو جاتی تھی۔ میر ظفر اللہ خان جمالی ہی وہ شخصیت ہیں جو جنرل پرویز مشرف کے سامنے ڈٹ گئے، جنرل پرویز مشرف اے کیو خان کو امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے میر ظفر اللہ خان جمالی نے نا صرف اس کا انکار کیا بلکہ ڈاکٹر صاحب کے لیے ایک محفوظ راستہ بھی نکالا۔ میر ظفر اللہ خان جمالی کا خیال تھا کہ مشکل وقت گذرے گا تو ڈاکٹر صاحب دوبارہ ملک کی خدمت میں مصروف ہو جائیں گے۔ ایٹمی طاقت بننے کے بعد ڈاکٹر صاحب توانائی کے بحران کو ختم کرنے اور اس شعبے میں پاکستان کو بلندیوں پر دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ وہ بلاشبہ اس کی اہلیت بھی رکھتے تھے۔ امریکہ کے الزامات اور جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کی زندگی مشکلات میں گھر گئی۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد آنے والے حکمرانوں نے بھی محسن پاکستان کو نظر انداز کیا اور ان سے اپنا تعلق محدود کرتے گئے۔ یہ صورت حال ان کے لیے بہت تکلیف دہ تھی وہ کبھی کبھی اس کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے۔ بہرحال انہوں نے قوم کی خدمت کی، اس ملک کا بچہ بچہ ڈاکٹر اے کیو خان کا مقروض ہے انہوں نے ہمیں دشمنوں سے بچانے کے لیے دن رات محنت کی پھر اپنوں کی سازشوں کا شکار ہوئے۔ ان کے کئی انٹرویوز ہماری محسن کشی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ ڈاکٹر صاحب تو رخصت ہو گئے ہیں لیکن انہوں نے زندگی کے آخری ایام جیسے گذارے ہیں وہ ہم سب کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ ہم سب کو یہ سوچنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ہمیں جو دیا کیا ہم انہیں واپس لوٹا سکے!!!