اشرافیہ اور عوام۔۔۔ جینا ہو گیا حرام
حکم الٰہی ہے ،’’ولا تلبس الحق باالباطل و تکتموا الحق و انتم تعلمون ‘‘ اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملائو اور سچی بات کو جان بوجھ کر نا چھپائو۔ اور اگر تمہیں حق کا پتہ ہے تو اُسے مت چھپائو۔ بادی النظر میں احکاماتِ رب کرمیم میں کوئی ابہام نہیں ہے لیکن ہمارا بہت بڑا معاشرتی ، اخلاقی اور قانونی المیہ ہے کہ ہم جانتے ہوئے بھی حق بات کہنے کی جرأت نہیں کرتے جس کا ایک الگ پس منظر ہے۔ ہمارے ہاں زندگی کے ہر شعبہ میں ایک عرصہ سے حق و صداقت کا پہلو مفقود ہو چکا ہے۔ خاص کر صحافتی دُنیا میں سچی بات کہنا اور اس پر قائم رہنا، کاردارد۔
وطن عزیز میں ہر پُرفِتن اور کٹھن دور میں بلاشبہ روزنامہ نوائے وقت نے کم و بیش 80 برس سے بھی زیادہ محیط عرصہ میں ہر جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق ادا کرنے کا فریضہ فرمانی نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق سرانجام دیا۔ جس کی بنیاد قائد اعظم کے دور سے 1962ء تک حمید نظامی مرحوم نے رکھی اور اس کو ٹھوس اور مستحکم اور تسلسل سے استوار کیا۔ مجید نظامی ، سالار کاروان نظریۂ پاکستان نے اپنی جہد مسلسل سے کم و بیش باون سال تک جاری رکھتے ہوئے ہر آنے والے آمر اور آمرانہ جمہوری حکومتوں کو قومی مفادات کو پیش نظر رکھ کر بغیر خوف و خطر للکارا۔ یہ کارروانِ صحافت جاری و ساری ہے اور اسی جرأت رندانہ اور دلیرانہ انداز کو نوائے وقت کے کم و بیش تمام لکھاریوں نے اپنایا ہوا ہے چنانچہ قومی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر بلاتعصب ، جھجھک اور لگے لپٹے ہوئے سعید آسی صاحب اس سلسلہ کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اپنے لکھے گئے ہزاروں کالمز میں سے چیدہ چیدہ کالمز کا مرصع گلدستہ چند ہفتے پیشتر ’’اشرافیہ اور عوام‘‘ کے عنوان سے مجھے بھی انہوں نے نہایت محبت سے پیش کیا۔ اس میں محرر شدہ ہر کالم ملک و ملت کے گوناں گوں مسائل ، عوامی پریشانیوں ، حکمرانوں کی چشم پوشیوں کا احاطہ ہے۔یہ الگ بات ہے کہ مقتدر طبقہ ان پر غور و فکر کرتا ہو یا نہ کرتا ہو‘ لیکن آسی صاحب نے اپنا فریضہ ادا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ یوں تو ہر کالم اپنی جگہ بہت ہی اہم حتیٰ کہ عنوانات کے لحاظ سے منفرد ہے‘ لیکن میں نے انکے ایک کالم بعنوان ’’عوام اور اشرافیہ کیلئے الگ الگ قانون کا پراپیگنڈا‘‘ پر موجوہ حالات کے تناظر میں چند مزید عنوانات بنانے کی جسارت کی ہے تاکہ حکمران وطن‘ اس کے حواریوں اور خوشامدیوں کو حقائق سے آگاہ کیا جائے۔
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
موجودہ حکمران خاص طورپر عوام میں انصاف کا بول بالا اور سابق حکمرانوں کی کوتاہ اندیشیوں کو بنیاد بنا کر حکومت قائم کرنے کے اہل ہوئے ہیں لیکن ان تین سالوں میں وزیراعظم سمیت ان کے تمام رفقائ‘ وزراء اور مشاہیر اپنے وعدوں کی پاسداری نہ کر سکے۔ انصاف تو کجا‘ عوام کی روزی روٹی اور ان کے منہ سے نوالہ چھیننے کا باعث بنے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول ہے ’’کفر سے حکومت چل سکتی ہے‘ ناانصافی سے نہیں۔‘‘ اختتام میں ہر نقطہ کو واضح اور روشن کر رہا ہوں۔
٭۔ بے وسیلہ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ٭۔ حصول انصاف کیلئے طویل عدالتی نظام اور اس سے منسلک تمام سسٹم غریب آدمی کی بجائے صرف اشرافیہ کیلئے ممدومعاون ہے۔ ٭۔ دہرے قانون کی نہیں‘ قانون کی عملداری کی ضرورت ہے۔ ٭۔ آئین پاکستان نے ہر شہری کی مساوی حیثیت کو تسلیم کیا ہے۔ ہر شہری کو صحت‘ تعلیم‘ روزگار اور انصاف کی بلا روک ٹوک اور بلا امتیاز فراہمی … ریاست اپنی ذمہ داری کہاں تک نبھا رہی ہے۔ سوال یہ ہے؟ ٭۔ ہر شہری کی عزت نفس کی پاسداری ہو رہی ہے؟ ہر شہری کا جائز کام بھی بغیر کسی رکاوٹ اور خوش اسلوبی کے ساتھ ہوتا ہے‘ نہیں۔ ٭۔ عوام مایوس اور مضطرب اور آپ کی ٹیم کی لوٹ سیل سے مکمل طورپر مایوس ہو گئے ہیں۔ ٭۔ گفتار و کردار میں یکسانیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ٭۔ خدا را عام عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھنے کی روش ترک کرکے شرف انسانیت کو مقدم رکھیں۔ ورنہ ہم زندہ معاشرے میں محض قبروں کے مجاور بن کر رہ جائیں گے۔ سعید آسی صاحب کی کاوش کے پیش نظر سلیم کاشر کا ایک قطعہ پیش خدمت ہے۔
حق سچ لئی دکھ سہیئر لئے
اتے بُھل جائیے سکھ چین یارو
جدوں سمے دی ککھ یزید جمے
اگاں و دیئے وانگ حسین یارو
کربل ویلے دی خُون دے نال رنگ کے
آن والیاں نوں درس دے جایئے
سفر زندگی دا سوکھڑا کر جایئے
کِسے انھے دے بن کے نین یارو
٭…٭…٭