جمعرات ، 7 ربیع الاول 1443ھ14 اکتوبر 2021ء
پی ٹی آئی کی سیٹیں کم تھیں پھر آپ کوپتہ ہے جہاز چلا: جہانگیر ترین
کہتے ہیں’’گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘‘یا ’’ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوٹی‘‘ یہ کوئی بے کار مثالیں نہیں بزرگوں کے صدیوں کے تجربات کا نچوڑ ہیں۔ جو ہم ہمیشہ دیکھتے آئے ہیں۔ صدیوں کا تجربہ ہے یہ جو ہمارے سامنے ہے۔ اس لئے بڑوں نے ہی کہا ہے کسی پر بھروسہ مت کرو۔ اب ہماری سیاست کے نزدیک ترین دور میں ہی دیکھ لیں ایک شخص نے کس طرح اپنی جماعت کیلئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے۔ اس کی گاڑیاں، جہاز، اے ٹی ایم کارڈز لگاتار اپنی جماعت کو اقتدار دلانے کیلئے مصروف عمل رہے مگر جب جماعت اقتدار میں آئی تو اسے ہی دودھ میں مکھی کی طرح نکال پھینکا گیا۔ اس پر وہ شکوہ کرتے ہوئے
آگ دی جب باغباں نے آشیانے کو مرے
جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
تونہیں کہتے مگر گزشتہ روز جہانگیر ترین نے جس طرح اپنے جہاز اور خزانے کا ذکر خیر کیا وہ سمجھ داروں کیلئے ایک اشارہ ہے۔ اب خدا جانے یہ مری، چھانگامانگا، سوات، اے ٹی ایم مشینز اور جہازوں کا ہماری سیاست سے خاتمہ کب ہوگا کب مخلص بے لوث قیادت سامنے آئے گی۔ مانگے تانگے کی سیاست سے کب جان چھوٹے گی۔ کبھی ترین جی اور خان صاحب میں خوب گاڑھی چھنتی تھی۔ آج دونوں کی پٹڑیاں بدل گئی ہیں یا روٹ بدل گیا ہے۔ اس کا تذکرہ اب کھلے عام ہونے لگا ہے۔ شاید یہ سب کچھ ریکارڈ درست رکھنے کیلئے کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف کی خاموشی بتا رہی ہے کہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی…
٭٭٭٭٭
12 اکتوبر لیگی قیادت کی جانب سے یوم سیاہ کی کوئی تقریب نہ ہو سکی
اب معلوم نہیں یہ سیاسی افراتفری کا اثر ہے یا مسلم لیگ (ن) سابق صدر پرویز مشرف کے لگائے کاری وار کو بھول گئی ہے۔ ویسے بھی کہتے ہیں وقت آہستہ آہستہ ہر زخم مندمل کر دیتا ہے مگر سیاسی زخم تو سدا ہرے بھرے رہتے ہیں۔ 5 جولائی کو دیکھ لیں پی پی والے آج تک اس دن یوم سیاہ کے نام پر مناتے ہیں۔ اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) والے تو بڑے بودے نکلے۔ انہیں 12 اکتوبر بہت جلد بھول گیا۔ کیا مسلم لیگ (ن) والے فراموش کر چکے ہیں کہ آج ان کی جماعت اور ان کے قائدین کی جوحالت ہے وہ اسی روز مشرف کے ہاتھوں شروع ہونے والی داستان سے ہی ہے۔ خیر یہ سیاسی باتیں سیاسی افلاطون ہی زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ مگر ایک بات تو طے ہے کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) میں جو رسہ کشی چل رہی ہے‘ اس میں (ش) اور (ن) کے جغادری پہلوان یعنی سیاستدان پوری طاقت سے اقتداری رسے کو اپنی اپنی طرح کھینچ رہے ہیں۔ پہلے تو یہ سب عوام کی نظروں سے چھپ کر ہوتا رہا‘ اس لئے لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا ہے مگر اب یہ سب کے سامنے ہو رہا ہے اور
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
سو اس افراتفری کے عالم میں کس کو 12 اکتوبر یاد رہا ہوگا۔ سب کسی نئی تاریخ کے منتظر ہیں۔ معلوم نہیں اب جو نئی تاریخ ہوگی‘ وہ یوم سیاہ کہلائے گی‘ یوم تقسیم کہلائے گی یا پھر مسلم لیگ (ن) کی سیاست کی تدفین۔ رسہ کشی میں مصروف کھلاڑی اس کوشش میں مصروف ہیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ ویسے بھی نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔
٭٭٭٭٭
حاصل پور میں9 سالہ طالب علم کو درجنوں کتے نوچ نوچ کر کھاگئے
عوام عرصہ دراز سے ملک بھر میں آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کے بڑے پیمانے پر کاٹنے کے واقعات پر شور کررہے ہیں مگر حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں کتوں کے کاٹے کے علاج کی سہولتیں تو بڑے شہروں میں پوری طرح میسر نہیں مگر آوارہ کتے ہر جگہ شہرہوں یا گائوں غول در غول دندناتے پھرتے ہیں۔ عوامی شکایات کے باوجود ان کو مارنے کیلئے ان کا قلع قمع کرنے کیلئے کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ ہمارے ہاں کون سا مغربی معاشرہ ہے جہاں این جی اوز اپنے اس سگوں کو مارنے پر شور کرے۔ اگر کوئی شور کرے تو اسے بھی اسی مقام پر ان خونخوار کتوں کے سپرد کرکے ان کے نوچنے بھنبھوڑنے کا مزہ چکھایا جائے۔ انگریزوں کے دور میں دیکھ لیں وہ خود سال میں دو مرتبہ آوارہ کتوں کو تلف کرنے کی مہم چلاتے تھے تاکہ عوام کو ان کے کاٹنے سے محفوظ رکھا جاسکے حالانکہ وہ جانوروں سے زیادہ محبت کرتے تھے۔ ہم کالے انڈینز کے مقابلے میں۔ اب آزادی کے بعد ہم کیا کررہے ہیں ہم نے تو کتوں کو مارنے والے فنڈز ہی خود کھانا شروع کردیئے یوں ملک بھر میں جہاں جائیں آوارہ کتوں کے لشکر غول بیابانی کی طرح لوگوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ روز ایسی کوئی نہ کوئی خبر چھپتی ہے اب حکومت تو بے حس ہے اس لئے عوام از خود جہاں آوارہ کتوں کو دیکھیں انہیں ماریں ایسا کرنا اپنے بڑوں، بچوں اور عورتوں کو تڑپ تڑپ کر مرتا دیکھنے سے زیادہ بہتر ہے…
٭٭٭٭٭
جناح ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹرز کی قابل اعتراض ویڈیو بناتے والا گرفتار
دیکھ لیں ہمارا معاشرہ تباہی کی پستی کی کن اتھاہ گہرائیوں میں گر رہا ہے۔ کم پڑھے لکھے ہوں یااعلیٰ تعلیم یافتہ سب اخلاق باختگی کی تمام حدود کو پار کرنے لگے ہیں۔ ملک بھر میں آئے روز قابل اعتراض ویڈیوز بنانے کے واقعات سے یوں لگتا ہے گویا سارا معاشرہ ہی اس مکروہ گھنائونے فعل میں مصروف ہے۔ جناح ہسپتال لاہور میں گزشتہ روز ایک ایسے ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر کو گرفتار کیا گیا جو وہاں کی نرسز اور ڈاکٹرز کی قابل اعتراض ویڈیو فلمیں بناتا تھا۔ ایسی فلمیں ظاہر ہے مرضی سے توکوئی نہیں بنانے دیتا یہ درندہ نشہ آور مشروب پلا کر ویڈیو بناتا تھا۔ پہلے ہی ہسپتالوں میں ایسی حرکتوں پر کئی افراد کیخلاف مقدمات درج ہیں مگر ابھی تک ان میں سے کسی کو ایسی قرار واقعی سخت سزا نہیں ملی جو دوسروں کیلئے باعث عبرت ہو۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو آج کسی میں ہمت نہ ہوتی کہ وہ کسی کو بلیک میل کرنے کیلئے ایسی قابل اعتراض ویڈیوز بناتا۔ اس ڈاکٹر سے ایک دو نہیں پوری 50 ویڈیوز برآمد ہوئی ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ بدبخت کب سے یہ گھٹیا حرکت کررہا ہوگا۔ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ایسے لوگوں کو چوراہے پر لٹکا کر دوسروں کیلئے نشان عبرت بنایا جائے۔